ملا مرتوں کے بعد مجھے
جو شخض میرے مزاج کا تھا
میرے جیسے خو تھی اس کی
انداز میرے انداز سا تھا۔
ہمراز میرے رازداں کا
حال میرے حال سا تھا۔
سوچ اسکی،خیال اسکا
گمان میرے گمان سا تھا۔
حرف حرف ہر لفظ لفظ
ہو بہو میری بات سا تھا۔
وہ شخص نہ تھا ہم نشیں!
مقام گویا طواف کا تھا۔
غم چھپانا ادا تھی اسکی
مسکرانا کمال کا تھا۔
جلترنگ جو آواز بکھیرے
سر چھڑا جوں سازکا تھا۔
بند کیا باندھوں ستائشوں کے
یہ تو قصہ گلاب کا تھا۔
جو تھا میری متاع ہستی
وہ سراپا سراب سا تھا۔
سانس بن کے دھڑکنا دل میں
لہو میں بستا خیال سا تھا۔
وہ تو قصہ خواب کا تھا
وہ تو نغمہ سراب کا تھا۔
جو شخض میرے مزاج کا تھا
وہ ساتھ میرے ساجھ کا تھا۔
وہ ساتھ میرے ساجھ کا تھا......
No comments:
Post a Comment