جیسے دیکھنے کی خاطر یہ جو ہم تڑپ رہے تھے
اُسے جان ہی نہ پائے ، نہ کبھی اُسے ملے تھے
یہ زمانے والے ہم سے تو یوں ہی اُلجھ پڑے تھے
بھلا کون سا گنہ تھا جو کہ ہم ہی کر چکے تھے
یہ جو ہجر کا تھا صحرا ، مجھے دے گیا اذیت
میں نےجس طرف بھی دیکھا وہاں سنگ برس رہے تھے
یہ زمانے کی عداوت ہمیں راس ہی نہ ائی
وہ جو اپنے تھے ہمارے ، وہ پرائے بن چلے تھے
وہ بھی راستے تھے کیا کیا ، جہاں سے گزر گئے ہم
جو قضا ہمیں نہ آتی تو غموں سے بھر گئے تھے
وہ بھی خوب تھا نظارہ ، وہ جو مسکرا رہے تھے
چمک اُن کی آنکھ میں تھی، مری لاش دیکھتے تھے
مری الفتوں کی ساری یہ انیس ہے کہانی
کسی کو خبر نہیں تھی سرِ راہ گزر پڑے تھے
محمد انیس رزاق
No comments:
Post a Comment