سفر تھا سہانا اور رشتہ پرانا
نہ میں نے ہی سمجھا نہ تو نے ہی جانا
چلی جاتی تھی زندگانی کی کہانی
لیے سنگ ہم کو جو کتنے ہی آناڑی
تھے ہاتھوں میں ہاتھ نہ تھا کوئی ڈر
جب تک تھا یقین تو ہے ہم سفر
موڈ آیا ایک ایسا بدل گئ راہیں
ٹوٹا یقین اور پھر گیں نگاہیں
کاش ممکن ہو واپس اسی راہ جانا
موڑ موڑنا نہیں وہی روک جانا
درمیاں میرے تیرے اب دوری ہے اتنی
ممکن نہیں اب اس کو مٹانا
ہے منظور مجھ کو ہر وہ سزا ایک کردے
جو پھر تیری میری رضا
No comments:
Post a Comment