بےچینی غربت اور افلاس ہے۔
نہ
کسی کو یہاں کسی کا احساس ہے۔
ہر طر
ف دکھوں کا موسم ہےآج کل
نہ جانے کتنی آنکھوں میں خوشیوں کی آس ہے
بد عنوان اور مفاد پرست بستے ہیں یہاں
بہت کم ہی کوئی فرض شناس ہے
کتنے بے درد ہیں یہ دنیا والے۔
ان ہوس زدہ لوگوں میں دولت کی پیاس ہے
لڑتے ہیں فقط چند سکوں کے لیے۔
نہ کسی کو یہاں سکون راس ہے
وقت بدلے گا کبھی تو اے دلِ ناداں
بس ایک یہی امید میرے پاس ہے ۔۔۔ ،،،،،۔،،،،،۔،،،،،۔،،،،، ۔
مسز قمر شہزاد شاہ،،،،،۔،،،،،۔،،،،،،،