حضرت عزرائیل علیہ السلام اور فاریہ
(سیدہ صغریٰ غازی)
خدا
کا لے کر نام لکھتی ہوں اچھوتی داستاں
کل
رات خواب جو دیکھا ہوئی میں حیراں
معمور
ہیں جو روح قبض کرنے پر آئے وہ ع خواب میں
ایک
سوال تھا میرے پاس جو ائے وہ خواب میں
نور
کی روشنی میری آنکھیں چندھیا گئی
اس
قدر جلال اور دہشت میری پلکیں جھکا گئی
جی
کڑا کے میں نے آگے کو ہو کر یہ کہا
سنیے
حضور سلام ہو آپ پر میری بات سنیں زرا
وہ ع چونکے
دیکھ کر مجھے یوں سر راہ
پھر
زرا ٹھہر کر یوں مجھ سے ہوئے گویا
کہو
کیا کہنا ہے مجھ سے تمہیں اے حسیں نوجواں
کیوں
آئی ہو خدا کی بندی تم ایسے میرے سامنے یہاں
شروع
کی جو بات میں نے اپنا گلا کھنگار کر
دل
کو کہا فیل نہ ہو جانا تو زرا صبر و انتظار کر
حضور
آپ ع سے اب کیا پردہ ہے اک کام میرا ادھورا
وقت
ہو جو پاس تو کردیجیۓ
وہ کام پورا
ہمہ
تن گوش ہوں میں جلدی زرا بولو بیٹا
دل
میں جو ہے پنہا وہ راز کھولو بیٹا
اب
دیکھ کر انہیں ہوئی میں آہستہ سے گویا
میں
ہوں جاگی ہوئی اور سارا جہاں ہے سویا
کہا
کے لے جائیے مجھے ساتھ اب کی بار
یہ
زندگی راس نہیں مجھے سخت ہوں بے زار
طعنوں
کے تھال میں تمسخر کی ملتی ہے خوراک
جو
بات کہوں سیدھی کٹ جاتی سب کی ناک
ہنستے
ہنستے سبھی میرا دل دکھا دیتے ہیں
اک
جھٹکے سے عرش سے فرش پر گرا دیتے ہیں
وہ
ع مسکرائے اور میری زباں ہوئی یکدم خاموش
دنیا
میں دل والوں کا کہاں لگتا ہے جی اے مدہوش
اتنی
سی بات پر لے جائوں تمہیں اس جہان سے
آگے
کے حسابوں سے بھاگو گی فوراً اس جہان سے
عمر
دیکھو اپنی اور پھر باتیں سنو زرا
ابھی
سے سیکھ گئی تم تو زندگی کا فلسفہ
تھک
گیا ہے میرا دل چل چل کر راہ پر خار پر
سب
کہیں صبر کے پھل کا تو انتظار کر
زخموں
سے چور دیکھ لیجیے یہ میرے پائوں
رستا
ہے خون ان سے بتائیے کہاں میں جائوں
خاکی
کے ہم سبھی پتلے، جانا پھر ہے خاک تلے
پھر
کیوں ہیں بتائیے اس دنیا میں آکھڑے
ہنستی
میں ہوں تو ہنستا یہ سارا جہاں
جو
رو دوں تو صرف روتا سنگ میرے آسماں
کیا
سنائوں اب اپنے درد و الم کی داستاں
اشک
سوکھ گئے اور ختم ہوئے حوصلے جواں
کہنے
لگے وہ ایسی بھی کیا بیٹا تم نے بات کہی
نکل
کر دیکھنا تم زرا درد در در اک بار سہی
ہے
کون جو کہے مجھے ہے یہ زندگی بہت راس
رہ
ہی جاتی ہے دل کے اندر کسی چاہ کی پیاس
صبر
و شکر کے سوا بھلا ہے ہی کیا پاس
اسی
کا ہوتا امتحان جس میں ہوتا احساس
میں
نے کہا مجھے میرا وقتِ مقررہ بتائیے
کہنے
لگے ع مالک کن کے پاس سے پوچھ کر آئیے
میں
نے کہا اب مجھ میں امید نہیں رہتی
کہنے
لگے ع خدا کی بندی پھر بھی غم ہے سہتی
میں
نے کہا بہار کا موسم نہیں آیا کیا کیجیے
کہنے
لگے ع فقط دعا کے سوا اور کیا کیجیے
میں
نے کہا نہیں دکھتا اپنا یہاں کوئی
کہنے
لگے ع کیجیے اور موضوع بیاں کوئی
میں
نے کہا مجھ نہیں چاہیے یہ زندگی
کہنے
لگے ع یہ فیصلہ کرتا ہے خالق خداوندی
میں
نے کہا سرد ہیں کیوں میرے دن رات
کہنے
لگے ع ہو جائے گی کبھی خوشیوں کی برسات
میں
نے کہا کیا کوئی چارہ نہیں اس کے سوا
کہنے
لگے ع کہ گزارنا پڑے گا جو وقت ہے لکھا
میں
نے کہا کہا درد نہیں ہوا آپ کو کبھی
کہنے
لگے ع میرا کام خدا نے مقرر کیا یہی
میں
نے کہا کبھی تو حوصلے بکھرے ہوں گے
کہنے
لگے ع یہ راز ہم سے نہ کھولنے ہوں گے
میں
نے کہا کسی کی آئی میں مجھے لے جائیے
کہنے
لگے ع جس کی آئی اسے کیسے چھوڑ جائیے
میں
نے کہا اک بے کلی کا چھایا مجھ پر سحر
کہنے
لگے ع ڈرو خدا سے نہ کرے کبھی تم پر اپنا قہر
میں
نے کہا تو طے ہوا آپ نہیں لے جائیں گے
کہنے
لگے ع وقت سے پہلے یہ ہم نہیں کرپائیں گے
میں
نے کہا پھر کردیجیۓ
ہوگئی ہو جو گستاخی
کہنے
لگے ع بھول چوک کی دیتا ہے وہ خدا معافی
میں
نے کہا اب جاتی ہوں میرا کوئی کام نہیں رہا
کہنے
لگے ع رات ہوئی، جائو کہ وقت شام نہیں
یاروں
پھر ہوئی یوں غازی کی یہ انوکھی ختم ملاقات
بتلا
چکی جو ہوئے بیچ ہمارے سوالات اور جوابات
اب
دیں اجازت آئے گی پھر کبھی غازی یونہی
ہوئی
جو کوئی ایسی انوکھی ملاقات پھر کبھی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔