"فقیرانہ صدائیں"
دہلیز
پہ کچھ درد رکھا ھے سن لے
پھر
سے گلی میں مقروض کھڑا ھے سن لے
حالات
کا نہیں وقت کا مارا ھے وہ
وگرنہ
اس کا بھی خدا ھے سن لے
مفلسی
نے بھکاری بنایا ھے ورنہ
وہ
بھی اپنا بادشاہ تھا سن لے
خاموش
ھے مگر ہارا نہیں ھے اب تک
بےبسی
پہ نہیں صبر پہ کھڑا ھے سن لے
دست
سوال بلند نہیں ہیں یونہی
وقت
سے شکست خوردہ ھے سن لے
دامن
میں یقین کا سکہ ھے اور بس
کچھ
خدا کا نام ھے سن لے
ناز کو بادشاھی نہیں فقیری ھی عطا کر
پھر
اس کی بھی فقیرانہ صدائیں سن لے
( از :۔ سویرا ناز محمد ایاز
)
*****************
No comments:
Post a Comment