سپنوں کا راجکمار اور فاریہ
( سیدہ صغریٰ غازی)
اففف
نا پوچھیے کل دیکھا اک حسیں خواب
جو
تھا نا تصور میں ایسا حسیں خواب
میں
کھڑی تھی پہنے سفید پریوں والا فراک
ہلکا
ہلکا میک اس پر واللہ میری تیکھی ناک
حد
نگاہ سجی تھی راہ سرخ گلاب سے
تھمتی
نا تھی روشنی میرے حسن و شباب سے
بالوں
کا بنا کر جوڑا اک طرف شانے پر گرائے
تھی
انتظار میں میرا سپنوں کا راجکمار آئے
اچانک
سے گرد اٹھنے لگی اور ارتعاش بپا ہوا
میری
سانس اٹکی اور دل زور سے دھڑکنے لگا
اپنی
مخروطی انگلیوں سے بکھری زلفوں کو سنوارا
اک
ہاتھ دل پر رکھا جو دھڑکے جا رہا تھا بیچارا
پھر
بنا کر ہاتھ کی چھاؤں سے دیکھا نظر اٹھا کر
آرہا
تھا کوئی دور سے گدھا گاڑی پٹر پٹر چلا کر
دل
مسوس کر رہ گئی میں نازک حسینہ
جانے
کہاں دیر کردی رہ گیا کہاں وہ کمینہ
پھر
رخ موڑ کر میں نے منہ کے زاویے بگاڑے
حسن
والوں نگاہ نہ پھیرو ہم ہیں تمہارے سہارے
سن
کر یہ رومانوی اور پیار سے چور آواز
آہ
ہ ہ دل الگ لے پر دھڑکا افففف یہ میٹھی آواز
آگیا
وہ جس کا تھا مجھے کب سے انتظار
پھر
رخ موڑ کر دیکھا اپنا دلربا راجکمار
یہ
کیا بکواس تھی یہ کیسا گھناؤنا تھا مذاق
گدھا
گاڑی کے ریڑھے سے اترا وہ خوش خوراک
تراہ
نکلا میرا میں ہوگئی پیچھے کو دو قدم
گوبھی
کا پھول لیے قریب میرے آیا وہ ہمدم
اجی
ڈریے نہیں ہم ہیں پہچانیے فاریہ دیکھیے زرا
تازہ
تازہ لایا ہوں پھول آپ کے واسطے ہرا ہرا
یوں
رخ موڑ کر مجھ غریب پر قیامت نہ ڈھائیے
کچھ
میری سنیے تو چند اک اپنی بھی سنائیے
کرایہ
دے دو بابو مجھے کیوں کیا ہوا ہے کھڑا
مزدور
پیشہ بندہ ہوں میری بھی سن لو زرا
ادھر
ادھر جیبوں میں تلاش کرنے لگا پیسہ
نکلا
نہ اک آنہ کیا نکلنا تھا کرائے کا پیسہ
پلو
کے ساتھ بندھے پیسوں سے کیا ادا کرایہ
راجکمار
نے شرمندگی سے کھسیانا منہ بنایا
پھر
کہا میں نے یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ
کہنے
لگا جانتا ہوں آپ کے دل کے حالات
یار
سرکاری نوکری کے لیے کیا ہے اپلائی
نوکری
لگ جائے پھر جہاز میں کریں گے فلائی
صرف
یہ پھول افورڈ کرسکتا تھا تو میں لے آیا
ابا
اماں کے ڈنڈوں سے بچ کر گدھا گاڑی پر آیا
میں
نے کہا پھوٹی قسمت یہ کیا ہے بیہودگی
فیسبک
انسٹا گرام پر نہ تھی ایسی سادگی
اجی
وہ تو سوشل میڈیا کی دنیا کے انداز نرالے
اب
بھلا کون سارا کتھا چتھا وہاں لکھ ڈالے
میں
نے رونا ڈال دیا ہوا ظلم ہائے ظلم ہائے
بھلا
ایسے راجکمار سے کون عشق لڑائے
دھڑام
سے گر کر زمین پر میں رونے لگی وہیں
وہ
بیچارا گوبھی پکڑے بیٹھ گیا پاس وہیں
اب
جو اچانک یاد آنے پر میں نے سر اٹھایا
اف
یہ نیلی جینز پر کیسا ستم تھا ڈھایا
جا
بجا ٹانکے لگے اور شرٹ پر بھی کالا سایہ
میرے
کچھ کہنے سے پہلے راجکمار چلایا
اوئے
خبردار میری جینز کو نا ہی کچھ کہنا
پھٹی
جینز فیشن ہے اس پر طنز نہیں سہنا
میں
نے کھینچ کر ہاتھ سے اسے گوبھی دے ماری
وہ
ہٹ کر پیچھے ہوا اور ہنس کر آنکھ ماری
آ
آ آ چیخ مار کر میں اچھلی یکدم یہ دیکھ کر
پونی
ٹیل تھی پیچھے جو جناب کی دیکھ کر
یہ
زنانہ شناخت بھی کہہ دو کے فیشن ہے
ایک
بار سکون سے گنوادو کیا کیا فیشن ہے
ارے
آج کل تو یہی ہے ہر جگہ چل رہا
پھٹی
جینز اور ساتھ میں پونی کا سیزن چل رہا
میں
نے کہا غضب خدا کا ایسا کب ہوا
کہنے
لگا جب پڑھائی کررہی تھیں تب ہوا
میں
نے کہا یہ گرد سے اٹا چہرہ یہ کپڑوں کا حال
سنا
نہیں کبھی اس قسم کے راجکمار کا احوال
کہنے
لگا ٹک ٹاک اسٹار ہوں یوں ہولا نہ لیجیے
دل
ہے جو آپ کا خدارا ہمارے نام کیجیے
توبہ
میری کہہ کر بولی میں ہٹ چل پرے
اندھی
ہوں جو دل میرا تم پر جا مرے
کہنے
لگا حد ادب نہ کیجیے کوئی ایسی ویسی گستاخی
پھر
چاہے ناک رگڑیں نہ دوں گا بعد میں معافی
انگلی
اٹھا کر میں نے اسے دی یہ دھمکی
جائو
کام کرو اپنا آیا بڑا ہیرو فرضی
کہنے
لگا پہلے تو بڑی شدت سے تھا انتظار
اب
دیکھو نخرے محترمہ کے سو سو ہزار
ہاتھ
جوڑ کر کہا خطا معاف یہاں سے جائیے
کہنے
لگا نہیں اففف یوں دل نہ دھڑکائیے
میرے
ہاتھوں کو قید اپنے ہاتھ میں کرلیا
آواز
دھیمی کر کے یوں کہنا شروع کیا
دیکھیں
یہ کیا لڑنا جھگڑنا اب جانے دیجیے
خوشیوں
کا استقبال کیجیے انہیں آنے دیجیے
بولی
میں در فٹے منہ کونسی خوشیاں کیسا استقبال
ہائے
ہائے یوں نہ بولیں ہو نا جائے یہیں میرا انتقال
میں
نے کہا خس کم جہاں پاک ابھی مر جائیے
کہنے
لگا سچ کہتی ہیں تو ہماری قسم کھائیے
گھوری
سے نواز کر میں اٹھی سنبھل کر وہاں سے
جی
کیا اٹھ جائوں ابھی کے ابھی اس جہاں سے
پھر
جو ہوئی تو تو میں میں مت پوچھیے
راجکمار
عرف باوا مرشد کیا بولا مت پوچھیے
میں
نے پکڑا دونوں طرف سے فراک اور لگادی دوڑ
دل
گردہ پھیپھڑے میں درد کے اٹھنے لگے مروڑ
ہائے
سن لیجیے یوں بھاگ کر مت جائیے
اچھا
میری مستانی کرایہ تو دیتی جائیے
خدا
بخشے میرے گناہ نہیں چاہیے ایسا راجکمار
گھر
کی صفائی جھاڑو پونچھا ہی بہتر پیر تا اتوار
ارے
سنیے سبسکرائب کردیجیے گا یوٹیوب چینل میرا
پیچھے
دیکھے بنا دھاڑی میں پیچھا چھوڑ دیجیے میرا
اچانک
سے منہ پر میرے پانی کا دریا بہایا گیا
اماں
جی کی آواز سے مجھے خواب سے جگایا گیا
ہڑبڑا
کر اٹھی میں دوستو حیران و پریشاں
شکر
ادا کیا خدا کا لوٹی جو حقیقت کے جہاں
توبہ
کی میں نے واپس آگئی صحیح سلامت
اب
نہیں کہنا ملے ایسا نکما راجکمار تا قیامت
چلو
دوستوں نکلو یہاں سے اور کوئی کام کرو
دنیا
میں اپنا دن رات محنت سے نام کرو
حاضر
ہو گی غازی پھر رہی جو زندگی
تب
تک کے لیے جائیے جان چھوڑئیے میری
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Supperbbb����love this♥️♥️kepp writing such funny poems....just fantastic ��
ReplyDeleteWhat a fantastic piece Ghazi.... you rocked dear������❤������������������
ReplyDeleteThis comment has been removed by the author.
ReplyDeleteHahaha 🤣🤣🤣 literally that was soooooooooooo humourous🤣 esa raajkumar sapno mn hi ata h ye zra gobhi ka phool parcel kr dijie ga writer sahibaaaa🤣🤣
ReplyDelete