بنا
رہی ہو آج غزل کا قافیہ پھر سے
قلم
لڑکھڑا رہی ہے پھر سے
لفظوں
کی ترتیب تو بنا لی
مقدر
کی آزمائشوں سے تنگ آرہی ہو پھر سے
قلم
کے بل بوتے پہ جیت تو جاؤ پھر سے
لوگوں
کی باتیں ستا رہی ہے پھر سے
اتنی
جرت تو آگی ہے پھر سے
لاشیں
بچھا دو منافقوں کی قلم کے زور پہ پھر سے
عروج
فاطمہ
٭٭٭٭٭٭٭٭
کردے
اقرار ،اظہار،گفتار پھر سے
تیرے
لہجے کی ہے کیا بات
یو
تو سنا ہے کئ بار نام اپنا
تو
ایک بار کہہ دے اپنی زبان سے تو کیا بات ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭
"
میں رو رہی تھی"
ہجر
کے غم میں رو رہی تھی
پرانے
خیالوں میں الجھ رہی تھی
لگا
کے محبوب سے ہزار امیدیں
اس
دن میں ہر امید پہ رو رہی تھی
ہجر
کے غم میں رو رہی تھی
ختم
ہو گئی تھی ہمت میری
ماضی
کو جو پلٹ کے دیکھتی تھی
حال
دل خود کو سنا رہی تھی
ہمت
نہ تھی تجھ کو بھلاؤ
اسی
بے بسی پہ رو رہی تھی
میں
ہجر کے غم میں رو رہی تھی
ہجر
کی رات کے بعد میں نے سویرا دیکھا
مجازی
محبت کو دفن کرکے
میں
نے تہجد میں جینے کا ہنر سیکھا
ہے
کسی میں ہمت مجھے رلاۓ
آکے
سامنے مجھ سے لڑپاۓ
کرم
خدا کا مجھ پہ ہے
مجھے
اب کوئ ہرا کے دیکھاۓ
عروج
فاطمہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment