دل کو اب بھی اس کے
دیدار کا یقین رہتا ہے
اے مکاں بول اب کہاں
وہ مکین رہتا ہے
یہ لاغر سا وجود یہاں
کس نے دھرا ہے؟
وہ شلال سا حسین بھی
یہیں رہتا ہے؟
کبھی رہتا ہو گا ہر
مقام پر ایک ہی شخص
اب تو جو دل میں رہے
بستر پر نہیں رہتا ہے
تم اڑاؤ گے میرے کردار
کی دھجیاں، تم؟
مت بھول کوئی تو اوپر
عزتوں کا امیں رہتا ہے
میں اپنے گاؤں کے سرداروں
کی بیٹی ہوں
مجھے معلوم ہے انصاف
اسی دنیا میں کہیں رہتا ہے
کر تو دوں میں اس بے
وفا کی روح تک گھائل
پر خدا کو منہ دکھانا
ہے، یہ ذہن نشین رہتا ہے
فصیحہ تکّلم
No comments:
Post a Comment