آمنہ زینب
نظم
کرونا
آجکل دل اداس رہتا ہے
ڈاکٹر تنہائی کا کہہ دیتا ہے
بازار میں جو کیا سلام میں نے
لیکن دور سے خدا خافط کہہ دیا جاتا ہے
خوشی میں لگاناچاہا جس کو گلے
اسی نے کرونا کا بہانا سنا دیا مجھے
چھینک آنے پر "کوئی یاد کر رہا ہے" ایسا کہا جاتا تھا
اب کرونا کا الزام حصے میرے ڈال دیا جاتا ہے
معاشرہ میرا وباء کا شکار ہے آمنہ
ہر شخص ہر کام اپنے طریقے سے کیا جارہا لیکن
مصروفیت کا تھا گلہ سبھی کو ہر دوسرے شحض سے
لو یہ گلہ بھی مٹا دیا ہے رب نے
لو ہاتھ پے ہاتھ رکھ کے بیٹھا دیا ہے رب نے
لو ہاتھ پے ہاتھ رکھ کہ بیٹھا دیا ہے رب نے
کب تک خدا کی خدائی سے انجان رہو گے
کب تک ٹیکنالوجی کے پیچھے بھاگتے رہو گے
کب تک مغفرت کی اذان دیتے رہو گے
کرلو توبہ اپنے گناہوں کی اے مسلمانوں
اور کتنی جانے دو گے اپنے پیاروں کی
کرو یقین ۔۔۔ایمان کرو تازہ اپنا
در رب کا ہے، ہے نہیں کسی انسان کا
سوچیں کیوں ہماری مانگی دعا کا انکار ہو گا
یقین ہے میرا!
رب تو شہ رگ سے بھی قریب ہے میرے اے مسلمانوں
بس اسے محسوس کرنے کی دیر ہے
بس اسے محسوس کرنے کی دیر یے