شاعری
(از قراۃ العین
لغاری)
***************************
یہ جو حیلے
بہانے کرتے ہو
اپنی باتوں سے جو مُکرتے ہو
ہمیں یوں لاجواب کرتے ہو
کہو! کیسے یہ کر گُزرتے ہو؟
ُمجھے توڑ کر خود سنورتے ہو
میری آسانیوں سے لڑتے ہو
تم تو کہتے تھے ہم پہ مرتے ہو
کہو! پھر کیسے یہ کر گُزرتے ہو؟
(قراۃ العین لغاری)
***************************
زخم
جو روح کے ہوتے ہیں
بہت تکلیف دیتے ہیں
بہت کم ظرف ہوتے ہیں
بہت خود غرض ہوتے ہیں
جسم کے زخم تو آخر
کبھی ضم ہو ہی جاتے ہیں
مگر یہ روح کے گھاؤ
بڑے بے درد ہوتے ہیں
نہ خود کو ختم کرتے ہیں
نہ تم کو جینے دیتے ہیں
یہ خود سے ہار جاتے ہیں
یا تم کو مار جاتے ہیں
(قراۃ العین لغاری)
***************************
دلِ تاریک کو اب اپنی روشنی دے دے
اے خُدا! اپنا ذکر ،اپنی بندگی دے دے
نہ مانگوں تُجھ سے تو پھر تُو بتا کہاں جاؤں
تیرے بن اور کوئی کیسے زندگی دے دے
میری آنکھوں کو اب نہ دینا کوئی اور آنسو
جو تیرے نام سے آئے وہی نمی دے دے
مئے دنیا کو نوش کرکے بہت تھک چُکا ہوں
تُو اپنی ذات سے وابستہ مئے کشی دے دے
اب تو دُنیا کے لیے جُھک کے بہت ٹوٹ چُکا
مُجھ کو اب اپنے سہارے کی آس ہی دے دے
اب تو اس روح کی حالت ہے ایسی مسخ شُدہ
کہ تیرے نور سے چاہوں شِفاء، وہی دے دے
میں تُجھ سے اور نہ مانگوں گا پھر کبھی کُچھ بھی
تُو مُجھ کو قُربِ الٰہی اور نبی صہ دے دے
(قراۃ العین لغاری)
#QuratUlAinLaghari_Writes💕
***************************
میں
چُپ ہوں کہ
کبھی تو صُبح میری رات کی ہوگی
کبھی تو پھول کوئی میرے گُلشن میں بھی مہکے گا
کبھی تو چاند کی کرنیں اندھیرے دور کر دیں گی
کبھی تو آفتاب اس دِہر پر میرا بھی چمکے گا❣️
میں چُپ ہوں کہ
کبھی تو خشک شاخوں کے یہ پتے پھر ہرے ہوں گے
کبھی تو میرے صحرا میں بھی پھولوں کا رہن ہوگا
کبھی تو شب کے سینوں کے دفینے پھوٹ نکلیں گے
کبھی تو آسماں پر میرے تارے جگمگائیں گے♥️
(قراۃ العین لغاری)
***************************
وہ بھی کیا خوب زمانے تھے
ہم تم میں بھی یارانے تھے
گئے چھوڑ ہو جب تم راہِ وفا
اب سوچتے ہیں وہ فسانے تھے
(قراۃ العین لغاری)
***************************
نہ میں رات تھا،نہ سویر تھا
نہ تھا روشنی،نہ اندھیر تھا
تُجھے کیا خبر میرے آشنا
میں تو قسمتوں کا ہی پھیر تھا
میں نہ آگ تھا،میں تو پانی تھا
میں سمندروں کی روانی تھا
میں نہ تھا خزاں کا موسم کوئی
میں تو کِھلتے گُلوں کی کہانی تھا
نہ فطور تھا،میں تو نور تھا
میری دید تیرا قصور تھا
تُو قضاء سمجھ کے پلٹ گیا
میں تو زندگی کا ظہور تھا
(قراۃ العین لغاری)
***************************
میں نے سوچا تھا چھوؤں گا میں آسمانوں کو
کیا خبر تھی ہوا کے رُخ سے ہی ڈر جاؤں گا
تُو تو زندگی مانگنے والوں میں سے تھا
تیرا موت کی دُعاؤں سے کب واسطہ پڑا؟
میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے
مُجھے معلوم ہے خوابوں کا ٹوٹنا کیا ہے
تیرے خواب ایسے بھی بے مول تو نہ تھے
جیسے لوگوں ان کو دھول میں اُڑایا ہے
میں نے جب بھی تیرے اوراق پڑھے ہیں __
مُجھ کو ہر سطر کے ہر لفظ میں تُم یاد آئے!
(قراۃ العین لغاری)
***************************