وہ عام سی ہی شام تھی
جب ہم ملے تھے
انجانی راہوں پے چلے تھے
کالی آنکھوں نے دل لوٹ تھا
یہ دل روز سے دھڑکا تھا
برستی بارش میں ہاتھ تھامے تھے
بہتے آنسو مسکراہٹ میں بدلے تھے
ایک چھوٹی سے کرنیٹو دی تھی
کہا کچھ بھی نہیں تھا
مگر محبت کر بیٹھے تھے
بارش میں خوب بھیگے تھے
ساری رات جاگے تھے
نئے سپنے پروے تھے
وہ بھی عام سی شام تھی
برستی بارش میں کرنیٹو پگھلی تھی
دو ہاتھ چھوٹے تھے
آنسو پھر سے بہے تھے
محبت گنوا بیٹھے تھے
جب ہم ملے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مریم شیخ
جب ہم ملے تھے
No comments:
Post a Comment