میں بھی کسی کی آبرو ہوں
کچھ تو لحاظ کیا کر
تیرے سامنے جو بنا حجاب آئی ہوں
یہ نہ سمجھ کے میں پردہ نشیں نہیں
یوں میری گلیوں میں نہ گھوما کر
میرے گھر کے سامنے دیر گئے نہ کھڑا کر
میں بھی کسی کی آبرو ہوں
کچھ تو لحاظ کیا کر
اے ابنِ آدم! میں ڈرتی ہوں تیرے شوق سے
میرے پاس اور کچھ نہیں بس یہی خزانہِ آبرو
ہے
یہ گلیوں میں جو چلتے پکر لیتے ہو ہاتھ
میرا
دیکھا نہیں تم نے زمانے کی نظریں ہیں ہم
پہ
میں بھی کسی کی آبرو ہوں
کچھ تو لحاظ کیا کر
میں تجھ پہ مرتی ہوں،چاہتی ہوں دل و جان
سے
مجھے شکار نہ بنا کہ میں ہاتھ دھو بیٹھوں
دین و ایمان سے
ابھی نامحرم ہیں ہم مجھے چھونے کی کوشش
نہ کیا کر
میں بھی کسی کی آبرو ہوں
کچھ تو لحاظ کیا کر
اور میں مانگتی ہوں تمہیں ہر دعا میں
تو ہی سمایا ہے میری ہر ادا میں
تیرا ہی نام ہے میری ہر صدا میں
بس یوں مجھے تماشہِ جہاں نہ بنا یا کر
میں بھی کسی کی آبرو ہوں
کچھ تو لحاظ کیا کر
ندیم
قاؔصر
No comments:
Post a Comment