وہ جو نہیں آتا گلی میں سدھر گیا ہوگا
یا دعوٰےالفت سے اب مکر گیا ہوگا
قاصد بھی نہیں آیا پیامِ یار لے کے
لگتا ہے قاصد سے بھی لڑ گیا ہوگا
شب ِدیجور ہے سرد ہواٶں
کا راج ہے
وہ نہیں آیا اِدھر تو اور کِدھر گیا ہوگا
وہ چونک اٹھتا تھا پتوں کی آہٹ سے
اس بجلی کی کڑک سے تو وہ ڈر گیا ہوگا
وہ جو نہیں آیا میری گلی لگتا ہے اب
قاؔصر کسی اور حسینہ پہ مر گیا ہوگا
ندیم
قاؔصر
No comments:
Post a Comment