تیرے
غم تو ہے ہی سوگ منانے کیلئے
زندگی
میں کچھ ہیں لوگ ہنسانے کیلئے
لگائی
تھی جو آگ برسوں سے توں نے
اب
آنسو ہیں اس قابل اسے بجھانے کیلئے
اچھا
کیا جو مجھے میری اوقات بتا دی
میں
شکر گزار ہوں تیرا آئینہ دیکھانے کیلے
تیرے
جانے کے بعد خالی تھا دل کا پنجرا
اب
اس میں کچھ پرندے ہیں اڑانے کیلئے
کبھی
چاہا ہی نہیں تھا کہ مٹ جائے زخم
ورنہ
مرہم تو بہت ملے تھے لگانے کیلئے
مگر
مٹ گئے ہیں وہ زخم جو دیے تھے توں نے
بس
اب کچھ باقی رہ گئے نشاں مٹانے کیلئے
لگتا
ہے تعبیر اب ممکن ہے ان خوابوں کی
جو
رہ گئے تھے میرے تجھے سنانے کیلئے
حالات
اک دم سے یوں بدلے کہ رستہ بدل گیا
پھر
تیرا شہر ہی چھوڑنا پڑا تجھے بھلانے کیلئے
کبھی
سیگریٹ تو کبھی سنگھار سلگا لیتا ہوں
کچھ
جونّٓ کی کتابیں رکھی ہیں دل لگانے کیلئے
کبھی
اکیلا ٹہلتا تھا دن رات چھت پے اپنی
اب
صبح ہوتے پرندے آ جاتے ہیں گن…
********
تو
بے وفا نکلا یہ میری قسمت میں ہو گا
جو
محبت تھی تم سے وہ میں کر گیا ہوں
سوچتا
ہوں تیرے بغیر کیسے گزاروں گا زندگی
تو
کیا گیا میں تو جیتے جی ہی مر گیا ہوں
نفرت
سی ہو گئی ہے خود سے مجھے اب تو
عکس
دیکھ کے اپنا آئینے سے ہی لڑ گیا ہوں
اپنے
گھر سے نہیں نکلتا اب میں تو کسی لمحے
اس
دنیا والوں سے میں اس قدر ڈر گیا ہوں
اٹھنے
لگے تھے پھر سے اک بار تیری طرف قدم
اب
کی بار تو میں اپنے ہی پاؤں پڑ گیا ہوں۔
صابر
***********
تو نے مجھے جو اپنے
دل سے نکالا
تو مجھے رہنے کو اور ٹھکانے بہت تھے
تیری
آنکھوں سے پینے کا عادی تھا میں
ورنہ
میرے رستے میں میخانے بہت تھے
رونے
کو بس اک تیرا کندھا ہی نہیں تھا
میرے
اپنے گھر کے بھی سرہانے بہت تھے
اُس پیڑ سے محبت تھی جو کاٹا توں نے
ورنہ ہم پرندوں کے اور آشیانے بہت تھے
توں نے جھانک
کر دیکھا ہی نہیں کبھی
میرے اندر بھی
اندھیر ویرانے بہت تھے
توں
نے پھر کبھی چاہا ہی نہیں ملنا مجھے
ورنہ
تیرے پاس تو ملنے کے بہانے بہت تھے
تجھ
سے ملا تھا تو چھوڑیں تھے یار اپنے
ورنہ
٫صابر، کے اپنے بھی یارانے بہت تھے
محبوب
صابر باکسر
*********
مشکلات
کا سامنا تو شروع سے ہی ہے
مگر
تیرا حق تو میں ادا کر ہی رہا تھا
یو
چھوڑ کر جانے کی کیا ضرورت تھی
مرا
تو نہیں تھا میں بس مر ہی رہا تھا
فتح
تو ہو کر رہنی تھی اک دن مجھے
آخر
برسوں سے حلات سے لڑ ہی رہا تھا
تیرے
چھوڑ جانے سے اور بھی گہرا ہوا
وہ
جو دل کا گھاؤ ابھی بھر ہی رہا تھا
ابھی
تو دیکھا نہیں تھا پیار، بچھڑ گیا
ابھی
تیرے پیار کا نشہ چڑھ ہی رہا تھا
آخر
امتحان کیوں لیا گیا مجھ سے پہلے
جبکہ
کتابِ عشق تو ابھی پڑھ ہی رہا تھا
آخر
وہ ہی ہوا نہ میرے ساتھ بھی صابر
جس
بات کا مجھے ہمیشہ ڈر ہی رہا تھا
صابر
***********
فقط
اک تیری خاطر میں نے
اپنوں کو بیگانہ کیا ہے
اک تجھے دیکھنے
کو تیرے
شہر میں ٹھکانہ کیا ہے
خود کو بھول جاتا ہوں جب بھی تجھے دیکھتا ہوں
توں نے بھی تو ہر بار مجھے خود کو دیکھانا کیا ہے
کاش کہ توں مجھ کو مکمل مل جاتا ،دور ہو جاتا
وہ جو میں نے اپنے گھر میں اندھیر ویرانہ کیا ہے
سنا
ہے کہ توں میرے گھر
میری تعزیت کو آنے والا ہے
میری
طبیعت تو ٹھیک ہے تجھ سے ملنے کا بہانہ کیا ہے
تم
پوچھتے ہو نہ اکثر تجھے دیکھے بنا سویا کیسے ہوں
تیرے
حُسن کا کمبل اوڑھے تیری یادوں کا سرہانہ کیا ہے
جتنی بار بھی میں نے تجھے دیکھا ہر بار صدقہ دیا ہے
اپنا تن من دھن ، اپنی
ہر شے کا تجھے نظرانہ کیا ہے
ہر لمحے تجھے سوچتا رہتا ہوں تم سے باتیں کرتا ہوں
تیرے
اس حسن کے جلووں نے صابر یوں دیوانہ کیا ہے
صابر
**********
یہ
نہیں ہے کہ صرف
اکیلا
دھاگہ ہی جلا ہے
موم
بھی پگھلا تھا پھر
جا
کر روشنی ہوئی ہے
ہاں
سنا تھا کچھ پانے
کیلئے
کچھ کھونا پڑتا ہے
بس
کچھ ہی پایا باقی
ہر
اک چیز ہی کھوئی ہے
صابر
************
رات
بھی تجھے ہی مانگا دعاؤں میں بھی
مگر
اب کہاں وفا رہی ہے وفاؤں میں بھی
موسم
تو اب بھی برسات کا ہے تیرے شہر کا
مگر
اب راحت کہاں رہی ہے ہواؤں میں بھی
کاش
کہ ایک بار ملنے آ جاتا فرصت کے لمحے
سوکھ
چکا پانی آنکھوں کے دریاؤں میں بھی
چھوڑ
دے ضِد بھول جا سب باتیں خدا کیلئے
چھوٹی
سی زندگی ہے کیا رکھا اناؤں میں بھی
خدا
کے واسطے ان حسین زلفوں کا سایہ کر دے
اب
دھوپ چبھتی ہے ٹھندی چھاؤں میں بھی
تڑپاتا
کیوں ہے اب مار ہی دے اپنے ہاتھوں سے
زندگی
کا مزہ نہیں رہا چھوٹی سزاؤں میں بھی
بھول
نہیں پاتا ہوں تجھے میں کسی لمحے بھی
شامل
تو توں بھی ہے صابر کے گناہوں میں بھی
صابر
*********
حسین
تو پہلے بھی بہت تھے اس دنیا
مگر
یار تجھ سا حسین کوئی نہ دیکھا
اصل
بات تو یہ ہے صرف تجھے دیکھا
مگر
اک تیرے
سوا کسی کو نہ دیکھا
مجھے
افسوس تو اس بات ہی رہتا ہے
تجھے
بھی کبھی بھی مکمل نہ دیکھا
اتفاقاً ہوتا رہا ہے ہمارے بھیچ یہ ہی
جب توں نے دیکھا میں نے نہ دیکھا
شکوہ
ہے یار تجھ سے میرا کہ توں نے
مجھے
دیکھا میری محبت کو نہ دیکھا
تڑپتا
رہا جب میں کبھی تیری یاد میں
ہائے
توں نے میری حالت کو نہ دیکھا
آ
ہی گیا نہ اب صبر مجھے تیرے بعد
توں
نے صابر دیکھا صابر کا صبر نہ دیکھا
صابر
**********
کوئی
اپنا تجھ سے جدا ہو کر سامنے رہے
تو سوچو دل کی کیفیت کیسی ہو
گی
جس پر کوئی بھی دوا اثر نہ کرے
تو سوچو اس کی طبیعت
کیسی ہو گی
تم تو سوتے ہو راتوں کو سکون
سے تو
سوچو
ہجر کی رات کی اذیت کیسی ہو گی
جو میں یونہی روتا رہتا
ہوں نہ ہر وقت
سوچو مجھ پر ظلم کی بربریت کیسی گی
جو
تیری یادوں کے سہارے جی کر خوش ہے
سوچو
اس کے لیے تیری اہمیت کیسی ہو گی
جس نے ساری
عمر تیرے سوا کچھ نہ رکھا
تو
سوچو بعد مرنے کے وصیت کیسی ہو گی
جو
تیرے کہنے پر انجان بنا نظر بھر نہ دیکھا
سوچو
اس کی تجھ سے اجنبیت کیسی ہو گی
جو
تیرے تلخ لہجے کو برداشت کرتا رہا برسوں
سوچو
اُفف تک نہ کی اس کی تربیت کیسی ہو گی
جو
کبھی کبھی بھی تیرے معیار تک نہ آ سکا
سوچو پھر صابر کی حثیت کیسی ہو
گی
۔صابر
*******
جب کسی کو بلانا چاہو میرے لبوں سے
مگر تیرے سوا کسی کو پکارا نہیں جاتا
تیرے گزرنے والے راہ میں کھڑا رہتا ہوں
میں اکثر رات دیر تک اپنے گھر نہیں جاتا
تجھے
دیکھے بغیر بے چین رہتی ہے طبیعت
ایسے کہ جیسے کوئی اپنا مر نہیں جاتا
تجھے دیکھنے
کے بعد منزل تو
پا ہی لی
مگر پھر بھی میرا یہ شوقِ سفر نہیں جاتا
ہجوم رہتا ہے ہر وقت
میرے دائیں بائیں
پھر بھی میرا وصالِ ہجر
نہیں جاتا
یار
اگر توں
مجھ سے ملنا نہیں چاہتا پھر
توں
مجھ سے کیوں مکمل بچھڑ نہیں جاتا
میں نے ہی تجھ سے محبت کی ہے نہ
بھلا یہ گناہ
بھی میرے ہی سر نہیں جاتا
نکالنا تو چاہتا ہوں تجھے زندگی سے اپنی
حقیقت
میں تو چلا جاتا ہے مگر نہیں جاتا
اکثر
شکستِ محبت کرتے ہیں میخانے کا رخ
دیکھو مگر پھر
بھی کبھی صابر نہیں جاتا
صابر
****************
زندگی
نے آج تک یہ ہی سیکھایا ہے
انسان
وہی ہے جس کے پاس مایہ ہے
میں
کسی ایک سے متفق نہیں ہوں
میں
نے لوگوں کو کئی بار آزمایہ ہے
ہر
ایک نے مجھ سے مطلب نکالا ہے
ہر
بارمطلب دے کر عزت کو بچایا ہے
جو
آج یوں تنہا ہوں نہ میں بس
بس
میری زندگی کا یہ ہی سرمایا ہے
یہ
نہیں کہ میرا کوئی اپنا نہیں ہے
اپنوں
میں بھی خود کو تنہا پایا ہے
جہاں
میں خود کو محفوظ سمجھتا رہا
قسمت
نے آج وہی پے پھنسایا ہے
آج
وہ ہی سانپ مجھے ڈسنے لگے ہیں
جن
کومیں نے ہاتھوں سے دودھ پلایا ہے
اب
تو دعا ہے خدا سے یہ ہی صابر
نکال
دے جنجال سے جہاں الجھایا ہے
زندہ
رہا تو اگلی کہانی بتاؤ گا جو ہوا
جو
ہو رہا ہے ابھی تک یہ ہی بتایا ہے
صابر
*******
بچھڑ
کر تو چین سے رہنے دو مجھے
آخر تمہاری
یہ چال کیا
ہے
حالت جب بھی سنبھلنے
لگتی ہیں
پوچھ لیتے ہو میرا حال کیا ہے
تیرا ستارہ
تو عروج پر ہے، تم
کیا جانو
ہجر میں زوال
کیا ہے
غیر بانہوں
میں سونے والے،
تم
کیا جانو سردی میں شال کیا ہے
پوچھیں جو چھوڑ جانے
کی وجہ
تو کہتے ہو کہ یہ سوال
کیا ہے
ایک چھوڑ کر دوسرے کو پا لیتے ہو
یار یہ
آخر تیرا کمال
کیا ہے
تیری یادیں یوں رقص کرتی ہیں کہ
ان کے آگے فقیروں
کی دھمال کیا ہے
بس یونہی خود کو کوسنے لگ گیا تھا
تجھے
کچھ کہے صابر، کی مجال کیا ہے
صابر
**********
ذکر
جس کسی سے بھی کیا تیرا میں نے
اس نے ہی تجھ سے
ملنے کی خواہش کی
یہ خوش قسمتی تھی توں مجھے ملا
بدقسمتی
یہ مل کربھی توں نے سازش کی
بہت
یاد آئیں ساتھ گزری ساون کی راتیں
جب بھی بات کی کسی نے بارش
کی
تم تک ہی محدود رہی
خواہشیں میری
نہ
کسی کی خواہش،تمنا نہ کبھی فرمائش کی
اک
بار تجھے دیکھنے کی چاہ میں، میں نے
ہزار
بار منت التجاء درخواست گزارش کی
کل
رات پھر آنکھیں تجھے دیکھنے کو تڑپی
پھر
سامنے رکھ کر تصویریں تیری نمائش کی
رِم
جِم کی طرح بہتے رہے آنسو آنکھوں سے پھر
صابر
ہوں خود ہی کو صبر کرنے کی سفارش کی
صابر
***********
رات کو خواب میں آپ کا دیدار ہوا
خوش تھا، مگر تنہا، جب بیدار ہوا
قرار پھر لوٹ کے آیا ہی نہیں مجھے
آپ کی یاد میں اتنا میں بے قرار ہوا
اتنا برا تو میں تھا ہی نہیں جتنا برا
آپ کے یوں جانے سے میرا کردار ہوا
آپ کے بعد ہر وہ ہی مجھ پر حاوی رہا
جو
بھی جہالت میں صاحبِ اقتدار ہوا
آپ
کے نام سے لوگ طنز کرتے ہیں مجھے
چلو اچھا میں
آپ کے نام کا حقدار ہوا
نمازوں
میں بھی دھیان ہٹا نہیں آپ سے
بس یونہی میں خود ہی گنہگار
ہوا
اٹھائی
قلم لکھنے لگا آپ کو لفظوں میں
صابر، لکھتے لکھتے آپ کو قلمکار
ہوا
صابر
*******
تیرا
یہ مسکرا کر مجھے دیکھنا ہی
زندگی
کا سب سے بڑا خسارا ہے
توں
تو یوں مسکرا کے چلا جاتا تھا
میں
نے ہر بار تیرا صدقہ اتارا ہے
توں
نے تو کبھی یاد بھی نہیں کیا
تیرے
بعد تیری یادوں کا سہارا ہے
حالات
تو ٹھیک ہی ہیں اب بھی
اک
تیرا غم،کچھ قسمت نے مارا ہے
لوٹ
آؤ اگر آنا چاہو توں اجازت ہے
اب
بھی میرا سب کچھ تمہارا ہے
میری
ہر بات میں ہر کتاب میں
ہر
شعر ہر غزل میں نام تمہارا ہے
ابھی
بھی تجھے پانے کی حسرت
صابر،
ابھی تک تنہا ہے کنوارا ہے
صابر
********