مجھ
کو دیکھا اور مسکایا ، حیرت ہے
اس
نے اپنا نام بتایا ، حیرت ہے
مجھ
آوارہ اور دیوانے لڑکے کو
اس
نے اپنے پاس بٹھایا، حیرت ہے
نالہ
گریہ بھول گیا میں یکسر ہی
ایسا
اس نے گیت سنایا ، حیرت ہے
دل
جن کا پتھر ہے ان لوگوں نے بھی
غم
پر میرے اشک بہایا ، حیرت ہے
اک
جوکر ہے درد ہے اس کے سینے میں
پھر
بھی ہم کو خوب ہنسایا ، حیرت ہے
حسیب
ناز
No comments:
Post a Comment