غزل
وہ بھوری آنکھوں والی لڑکی
جس کی آنکھیں جینے کا درس دیتی تھی
وہ ہر دم ھستی مسکراتی لڑکی ناجانے کیوں بدل
گئ
بعد مدت اسے ایک درخت کے نیچے پایا
اس کی اردگرد بسیرا تھا خزاں رسیدہ پتوں کا
اس کی آنکھیں اداسی سے بھری تھی
وہ ناجانے وقت کی کون سی گھڑی تھی
پوچھا جو میں نے اداسی کا سبب اس سے
وہ یوں اس انداز سے گویا ہوئے
رشتے ناجانے کیوں پل بھر میں بدل جاتے ہیں
سکھا کر جینا۔اپنے بھی کیوں اجنبی بن جاتیں
ہیں
اس کے دکھ کو محسوس کر کے میں یوں گویا ہوئی
ارے ناداں دستور ہے بدل جانا دنیا والوں کا
یھی حقیقت زندگی ہے بس سمجھتے نہیں بشر۔۔۔۔۔۔
رایٹر عایش عتیق۔
****************
بیٹیاں(نظم)
انگن میں کھلتے پھولوں جیسی
بیٹیاں تو ہوتی ہیں دعاؤں جیسیاں
چمکتے ہوئے روشن ستارو جیسیاں
بیٹیاں تو ہوتی ہیں موسم بہارو جیسیاں
ہوتا ہے اجالا جہاں بھی ہوتی ہیں بیٹیاں
کبھی ناز اٹھاتی ہیں تو کبھی بات منواتی ہیں
بیٹیاں تو ماں باپ کی لاڈلی ہوتی ہیں
سمجھتے کیوں ہیں لوگ بوجھ ہیں یہ بیٹیاں
گھروں میں اجالے کا باعث یہ بیٹیاں
ارے بشر ناداں رحمت ہے یہ بیٹیاں
ان کی
زرافت سے مہک اٹھتا ہے گھرانہ
بیٹیاں تو ہوتی ہیں گراں بہا خزانہ۔۔۔۔۔
رائٹر عایش
**************
سمجھ نھیں آتی کیا ہے یہ عورت
ناانصافی کی چکی میں کہیوں پستی ہے یہ عورت
درحقیقت ہے عورت کا ہر روپ تو رحمت کی صورت۔
عایش عتیق۔
سمجھتے کیوں ہے بشر اسے مٹی کی مورت۔
****************