لہو میرا جو بہتا ہے تو بہنے دو
کہ یہ میرے وطن میں روشنی کا گھر بنائے گا
محبت کی لکیروں کو محبت سے یہ جوڑے گا
بکھیرے روشنی ہر سو ایسے دیپ جلائے گا
پھر ہو جائیں گی راکھ نفرت کی لکیریں
کچھ اس قدر دلکش یہ آتش مچائے گا
اِک اور وفا دب جائے گی مٹی کے ملبے میں
میرا چھوڑا ہوا سایہ پھر چھاؤں بنائے گا
میں اِک راز ہو جاؤں گا وطن کے سینے میں
میں اِک خواب ہو جاؤں جو تعبیر بنانے گا
اس وطن کی حرمت پہ اک لفظ نہ آئے
میں اعزاز ہو جاؤں جو عزم بنائے گا
اِک شوقِ شہادت سا سینے میں ہے فلکؔؔ
وہ خاص ہو جاؤں جو شہادت ہی پائے گا
(عائشہ فلکؔ)
Ayesha Falak
٭٭٭٭٭٭٭٭
بھول جاؤں اُس کو دیکھ کر میں ہر پریشانی
جیسے صحرا میں مل جائے کسی پیاسے کو پانی
جب پہلے پہل سنی تھی میں نے اس کی کہانی
ہوئی تھی بہت مجھ کو اس شخص پر حیرانی
اِتنا عاجز ، اِتنا دلکش ، اِتنی معصوم ادا
یہ وہ ہستی ہے جسے کہتے ہیں وسیم بادامی
(عائشہ فلکؔ)
Ayesha Falak
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment