واہ تخلیق ہے خالق تیری
عجب کہانی ہے الفت میری
بچپن کی فرمائش تھی
جس عشق کی مجھکو خواہش تھی
کوئی الڑھ شوخ حسینہ ہو
جس کیلیئے مرنا جینا ہو
جو مست نگاہ اٹھائے تو
یہ سورج صبح کا دن چڑھائے
بن بادل میگھا برسی جائے
اس جنگل کے سارے پکھو
چڑیا طوطے بلبل جگنو
سب اسی کے گانے گائیں
سب ہی اس کو دیکھنا چاہیں
کوئی ایسا چاند سا چہرہ ہو
زلفوں کا جس پہ پہرہ ہو
دو آنکھیں جھیل کا منظر دیں
اور پلکیں ان پہ پہرہ دیں
دانت ہوں موتی دانوں سے
بھنویں ہوں تیر کمانوں سے
ہونٹ گلاب کی پتیاں ہوں
بس چند ہی اسکی سکھیاں ہوں
جو اسکی نظر اتارتی ہوں
جب گھنے بال سنوارتی ہوں
کل رات کی بات ہے گوہر جی
وہ دیکھی شوخ حسینہ سی
روحی بن کر روح میں اتری
چاندنی جیسے جھیل میں اتری
سبز لباس میں لپٹی تھی
جب وہ دل میں اتری تھی
جھکی جھکی نگاہیں تھیں
وہی شوخ ادائیں تھیں
بچپن کی جو فرمائش تھی
جس عشق کی مجھکو خواہش تھی
مولا اک فرمائش ہے
بچپن کی میری خواہش ہے
لوگ دنیا کے نیک ہو جائیں
گوہر روحی ایک ہو جائیں
No comments:
Post a Comment