شرابِ ارغوانی مجھے برباد نہ کردے
یہ تیری مست جوانی مجھے برباد نہ کردے
ٹھیک تھے تیرے ظلم وستم ہی مجھ پر
اب یہ خوش کلامی مجھے برباد نہ کردے
جو تیرے ہجر کی راتوں میرے لبوں نے کری
ایسی نوحہ خوانی مجھے برباد نہ کردے
اس قدر عنایت پہ میں قربان مگر
یہ تیری بادہ خرامی مجھے برباد نہ کردے
ہر حکم تیرا مانوں پھر بھی یہی ڈر ہے
کہیں اک بھی نافرمانی مجھے برباد نہ کردے
دل بھرتا ہی نہیں گناہوں سے
یہ جوانی مجھے برباد نہ کردے
گھٹیا لوگوں سے میں نہیں اُلجھا
کہیں بدزبانی مجھے برباد نہ کردے
تحسین خواہشِ موت عشقِ مجازی میں
ایسی نادانی مجھے برباد نہ کردے
شاعر: تحسینؔ علی
یہ تیری مست جوانی مجھے برباد نہ کردے
ٹھیک تھے تیرے ظلم وستم ہی مجھ پر
اب یہ خوش کلامی مجھے برباد نہ کردے
جو تیرے ہجر کی راتوں میرے لبوں نے کری
ایسی نوحہ خوانی مجھے برباد نہ کردے
اس قدر عنایت پہ میں قربان مگر
یہ تیری بادہ خرامی مجھے برباد نہ کردے
ہر حکم تیرا مانوں پھر بھی یہی ڈر ہے
کہیں اک بھی نافرمانی مجھے برباد نہ کردے
دل بھرتا ہی نہیں گناہوں سے
یہ جوانی مجھے برباد نہ کردے
گھٹیا لوگوں سے میں نہیں اُلجھا
کہیں بدزبانی مجھے برباد نہ کردے
تحسین خواہشِ موت عشقِ مجازی میں
ایسی نادانی مجھے برباد نہ کردے
شاعر: تحسینؔ علی
No comments:
Post a Comment