غزل
چپکے چپکے رات دن تیرا مسکرانا یاد ہے
ہم کو تیری دلگی کا وہ فسانہ یاد ہے
چوری چوری جس طرح تم دیکھتے تھے ہمنوا
مدتیں گزریں پر اب بھی وہ اندازحجابانہ یاد ہے
گرمیوں کی دھوپ میں بس میری اک جھلک کے واسطے
وہ تیرا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
سج کے سنور کے ،مسکرا کر دعوت حسن دیتے ہوۓ
میرے کمزور دل پہ تیرا بجلی گرانا یاد ہے
مجھ سے ملتے ہی وہ کچھ بے تاب ہو جانا تیرا
اور پھریوں حق سےصنم گلے سے لگانا یاد ہے
(سروش سحر)
***************
No comments:
Post a Comment