غزل
میں ہوش میں تھا اگر تو اس پہ مر گیا کیسے
یہ زہر محبت من میں یوں بھر گیا کیسے
کچھ اس کے انداز میں لگاوٹ ضرور تھی ورنہ
وہ میرے دل میں یوں اتر گیا کیسے
ضرور اسکی ہی یہ مہربانی ہو گی ورنہ
نشے میں اپنے ہی گھر میں پہنچ گیا کیسے
اسکی پر فریب محبت میں اے دوست
میں تپتے صحرا کا سفر بھی کر گیا کیسے
جسے بھلانے میں ہی ہو گیا تھا ناامید
میں آج اس سے رخ پھیر کر گزر گیا کیسے
ابھی تک حیرانی برقرار میری ہے سحر
وہ جو محوب تھا مجھے میرے دل سے اتر گیا کیسے
(سروش سحر)
*********
No comments:
Post a Comment