بچھڑنا کون چاہتا ہے
مگر اس زندگانی میں
سبھی لمحے
امر گر ہو بھی جائیں تو
زباں زد عام ہوتے ہیں
مگر قصے کہانی کی حدوں تک ہی یہ ممکن ہے
گھڑی کی سوئیاں کوئی
بھلا کیا روک سکتا ہے
یہ موسم آنے جانے ہیں
انہیں کیسے بھلا کوئی
پکڑ کر روک سکتا ہے
ہمارا تو کبھی خود پر بھی کوئی بس نہیں چلتا
کبھی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو دیکھ کر سوچو
ہمارا ضبط بھی اس کو بھلا کب روک پاتا ہے
مگر سب آتے جاتے موسموں سے ہم نے سیکھا ہے
کہ کچھ بھی ہو
کوئی دکھ ہو
کوئی آنسو
کوئی ہو درد کیسا بھی
ہماری زیست کا کیسا بھی موسم ہو
بدلنا اس کی فطرت ہے
کہ سارے موسموں کی ایک عادت یہ بہت اچھی
نائمہ غزل
مگر اس زندگانی میں
سبھی لمحے
امر گر ہو بھی جائیں تو
زباں زد عام ہوتے ہیں
مگر قصے کہانی کی حدوں تک ہی یہ ممکن ہے
گھڑی کی سوئیاں کوئی
بھلا کیا روک سکتا ہے
یہ موسم آنے جانے ہیں
انہیں کیسے بھلا کوئی
پکڑ کر روک سکتا ہے
ہمارا تو کبھی خود پر بھی کوئی بس نہیں چلتا
کبھی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو دیکھ کر سوچو
ہمارا ضبط بھی اس کو بھلا کب روک پاتا ہے
مگر سب آتے جاتے موسموں سے ہم نے سیکھا ہے
کہ کچھ بھی ہو
کوئی دکھ ہو
کوئی آنسو
کوئی ہو درد کیسا بھی
ہماری زیست کا کیسا بھی موسم ہو
بدلنا اس کی فطرت ہے
کہ سارے موسموں کی ایک عادت یہ بہت اچھی
نائمہ غزل
No comments:
Post a Comment