عشق
کے مرغِ گرفتار کو
اب ٬ نجات کہاں ملے
تو
بتا فصل ِ گل میں خزاں
کے نشاں کہاں ملے
کیا
کہا! ترک ِ الفت کا ارادہ
کیے ہو ٬ بھلا کیوں؟
رکھ کے پاٶں
محبت میں واپسی کے امکانات کہاں ملے
آتا
ہے اب بھی وہ ٬ شام
ڈالے گلی میں میری
مگر
اب اسے میری
ملاقات کہا ں ملے
قاؔصر غور کیا ٬ غنچہِ چمن
کی حرکات پہ کبھی
افسوس! کس کی حرکت ٬ اور الزامات کہاں
ملے
ندیم قاؔصر
No comments:
Post a Comment