یادوں کے سمندر میں ڈوبا ہوا تارا
گُزرے ہوئے لمحوں کی یادوں کا بہاوا
خوابوں میں آنا کبھی خیالوں میں آجانا
آکر ہمیں اپنائیت کا احساس دلانا
آنسوں کے آبشار میں تو ہے ہم کو نہانا
تم تو وہاں خُشیوں کے شادیانے بجانا
ہم دور ہو گئے ہیں ہمیں بھول نہ جانا
برسوں کا ساتھ ہے تم چھوڑ نہ جانا
ہمارے نرم سے دل کو یونہی توڑ نہ جانا
تمہاری یاد ہمیں اب بھی پہروں رُلاتی ہے
تمہاری قدر ہمارے دل میں اب بھی باقی ہے
دُنیا جب زخم دیتی ہے تو مرہم تم ہی ہوتے ہو،
آنکھیں جب برستی ہیں تو پونچھا تم ہی کرتے ہو
درد جب بے تحاشا ہو دوا تُم ہی ہوتے ہو
نہیں شکوہ تمہی سے نہ ہے کوئی شکایت بھی
فقط اک ہی تمنا ہے۔۔۔
ہم دور ہو گئے ہیں ہمیں بھول نہ جانا!
فائقہ
فرحت ریاض
No comments:
Post a Comment