ہیں زندگی تیرے یہ عجب کھیل مسلسل
مسلط ہے اور کہتی ہے کہ جھیل مسلسل
چلتی جاتی ہے اور کچھ سنتی ہی نہیں
سانسوں سے سانسوں کا ہے میل مسلسل
سب کی طرح تجھے بھی تو سر چڑهالیا
آکر تماشے اے زیست پھر پھیل مسلسل
اک زندان ہےقیدہیں جس میں شَب و روز
رہائی جس میں نہیں وہ ہے جیل مسلسل
ہے زندگی تو پھر جینا ہی پڑے گا سؔرکش
بیچ تو اپنے اب ہمیں پھر سے تیل مسلسل
☆کلامِ سؔرکش☆
No comments:
Post a Comment