قسمت جب سے سوٸی ہے
آنکھیں بہت ہی روٸی ہے
کھرچےجاتے ہیں پل پل زخم
اور زرا نہ دل جوٸی ہے
سمجھے بیٹھے ہیں لاوارث
مگر میرا بھی تو کوٸی ہے
امتحان بن گٸی ہیں سانسیں
جانے زندگی کیسی بوٸی ہے
سامنے حُضور کے جھوٹ
واہ اعلٰی ودرغ گوٸی ہے
بات یوں سنی سؔرکش کی
سنواٸی ہوٸی نہ ہوٸی ہے
☆کلامِ سؔرکش☆
No comments:
Post a Comment