ابھی زندگی آزمائش کا گھیرا ہے سؔرکش
عمرِ رواں مُشکل کا ایک پہرا ہے سؔرکش
مجھکو ہی نہیں انکوبھی تولا جارہا ہے
سچ تو ہےکہ پل ابھی تک ٹھرا ہےسؔرکش
سمجھ رہے ہیں لوگ گلستان یہ زیست
کبھی بارش کبھی حیات صحرا ہےسؔرکش
ابھی مل جاۓ گی تمکو زرا دُور ہی منزل
ہولےسےحوصلہ کان میں کہہ رہاہے سؔرکش
☆کلامِ سؔرکش☆
No comments:
Post a Comment