(نعت شریف)
آسماں سے نور اترا، اسمِ احمد پاک اترا
ہے فلک پر ذکرِ الفت، دو جہاں کا ماہی اترا
تھا تسلسل ہر طرف ہی اُن کے آنےسے جہاں میں
ہیں پرندے اور آہو چہچہاتے گنگناتے
روح میری بھی معطر ہے محبت مصطفی سے
اسمِ احمد پاک لے کر دل ہوا پرنور جیسے
تذکرہ جس جا بھی دیکھا آپ حُسنِ دو سرا کا
بیٹھ جاتا ہوں میں لفظوں کو چرا لیتا ہوں ایسے
دل مرا تھمتا نہیں ہے آنکھ بھی روتی ہے ایسے
دیکھیے سمجھاءیے کہ چشم و دل سنبھلیں یہ کیسے
موت ہے برحق مری پر انتظار اس بات کا ہے
فاصلاءے مصطفا ءے پاک سے بس موت کا ہے
زندگی میں رونقیں ہیں اے محمد آپ سے ہی
روح پرور چاہِ الفت میرا دل ہے آپ سے ہی
آسماں سے نور اترا ، اسمِ احمد پاک اترا
ہے فلک پر ذکرِ الفت،دوجہاں کا ماہی اترا
(محمد نعیم عباسی)
******
(غزل)
آسمان و زمیں دے گواہی مری
تھی محبت مجھے التجا تھی مری
پاس تھا وہ مگر دل سے تھا دور وہ
یہ صدا دل کی ایسی سنانی مری
کھلکھلا تا بلکتا تھا معصوم وہ
تھا وہی جس کو کہتا تھا ماہی مری
نرم ہونٹوں سے جب وہ پکارے مجھے
دل کے آنگن میں کھلتی کیاری مری
شیریں تھی گفتگو پُر تغیر بھی تھی
تھی سراپا وہ روشن کہانی مری
اب تو آجا ٹھہر کر مزہ لے کے جا
یہ بیابانِ مقتل تباہی مری
چاہتیں اب ہیں، وہ زمانہ نہیں
گر ہے غائب تو بس اِک سیانی مری
ان بہاروں کو تو اب نعیم بھول جا
الجھنیں مشکلیں تا حیاتی مری
******
nice
ReplyDelete