اگرچہ کام اچھا اب سبھی سے ہو نہیں سکتا
جو کرنا چاہے تو پھر کیا کسی سے ہو نہیں سکتا
کبھی ہم ایک تھے لیکن یہ تم نے کیا غضب ڈھایا
بھلائی کا صلہ یارو بدی سے ہو نہیں سکتا
مجازی عشق ہو چاہے مگر کچھ تو مرائل ہیں
فقط آنکھوں کا لڑنا کیا؟...... لڑی سے ہو نہیں سکتا
غنیمت ہو جو کر لیں اب کسی کے دل پہ ہم قابو
خود اپنے دل پہ قابو اب ہمی سے ہو نہیں سکتا
بظاہر آپ کے طرزِ سخن میں خوب ہے لیکن
مگر ہر فیصلہ اب خامشی سے ہو نہیں سکتا
تمہارے لمس کی خوشبو جو کرتی ہے چمن پاگل
یہ غنچے کر نہیں سکتے کلی سے ہو نہیں سکتا
بلا لیں اب مجھے یا آپ وہ تشریف لے آئیں
یہ اُن تک ہے فقط میری خوشی سے ہو نہیں سکتا
بھری محفل میں اکثر طنز سے کہتے ہیں وہ مجھ سے
کہ اچھا کام تو تحسیں علی سے ہو نہیں سکتا
تحسین علی
**********
جب اُنکی نگاہوں کو ہم دیکھتے ہیں
بڑے رشک سے جام وجم دیکھتے ہیں
کہاں اپنے ظلم و ستم دیکھتے ہیں
وہ ہنس کر میری آنکھیں نم دیکھتے ہیں
کبھی دیکھتے ہیں وہ مشکِ سکینہ
کبھی آنکھ اُٹھا کر علم دیکھتے ہیں
نہ ہو کیوں مجھے رشک قسمت پہ اُنکی
جو ہر روز دیر و حرم دیکھتے ہیں
وہ چاہتے تو ہیں آنا بانہوں میں میری
مگر پھر حیاو شرم دیکھتے ہیں
الہی یہ کیسا ہے دن آن پہنچا
وہ خود آکے میرے زخم دیکھتے ہیں
انگھوروں کے شربت تمہی کو مبارک
شرابِ طہورہ کو ہم دیکھتے ہیں
بڑے چپکے چپکے بھری بزم میں ہم
حسینوں کی زلفوں کے خم دیکھتے ہیں
تحسین اُنکی آنکھوں کے صدقے میں جاؤں
جو شام غریباں کے غم دیکھتے ہیں
تحسین علی
No comments:
Post a Comment