میں چاہتا ہوں کہ لب ہلیں_
کوئی لفظ گِرے،اور بات چھڑے
ہوا کی تال پہ لفظ اُس کے_
یوں رقص کریں کہ ساز چھڑے
پھر وہ باتیں کرتا جائے_
کچھ میری اپنی کہتا جائے__
میں چاہتا ہوں کہ ایسا ہو__
اور یہ بھی کہ نہ ایسا ہو__
میں چاہتا ہوں کہ گرد چَھٹے__
اِس خواب کی اب تعبیر بھی ہو
کسی گہری شام کے سائے میں_
مدہوش ہوا کی لہریں ہوں
اک وقت ہوا ہے اُس کو دیکھے
کاش کبھی تو سامنا ہو
میں چاہتا ہوں وہ دیکھے مجھے_
اور یہ بھی کہ نہ ایسا ہو_
میں چاہتا ہوں کہ ایسا ہو_
اور یہ بھی کہ نہ ایسا ہو_
No comments:
Post a Comment