کل
گئ تھی کسی دفتر میں لینے ملازمت
خوشی
سے پھول نہ پائی یہ کیا ہے علامت
ہم
نے بھی یہ سوچ رکھا سیلکٹ ہو جاےۓ
گے ہم
سن
کر جواب کچھ کھو گۓ
ہم
ہماری
حیرانگی کی انتہا نہ رہی
پہلی
جیسی اب اپنی حالت نہ رہی
کچھ
سوچا نہ سمجھا وہاں سے نکل گئ
پھر
جو خیال آیا وہ میں کر گزر گئ
گھر
آکے مجھے قاسم علی شاہ کا خیال آیا
موبائل
کو آن کیا دل کو قرار آیا
ہمت نہیں ہارنی کچھ کر گزرنا ہے
ذندگی
کے اندھیروں سے اب مجھے لڑنا ہے
یہ
دن بھی گزر جاۓ
گے سوچ کر اطمینان ملا یہ
ذندگی
کا بڑا راز مجھ پہ کھلا ہے یہ
جتنا بھی روئی ہوں میری بس نادانی
ہے
پرھنا
اور سمجھنا میری یہی کہانی ہے
از قلم ردا عباس
********************
No comments:
Post a Comment