'اردو کا نفاظ تہزیب کی بقا'
"چلی تھی برصغیر سے اک بادِ صبا
تہزیب
کی پہچان تھی،نہ تھا کچھ چھپا
ایک ہی زبان تھی،ایک ہی تھا پیعام
بر
نہ
تھا کوئ رقیب نہ قاصد کا خوف و خطر
جو
مغرب سے نکلا اک عجیب سا لہجہ
قوم
نے بدلی جو ریت اقدار تھا لرزا
دنیا
نے سیکھے عجیب قرینے
انگریزی
میں ڈوبے نئ نسل کے سفینے
نہ
وقت کو سمجھا نہ حالات کو جانا
ماں
بولی کے بھی لٹا دیے انمول خزینے
ہیں
خوب چرچے زبانِ غیر کے
لگتے
نہیں الہیٰ یہ اسباب اب خیر کے
نہ
دادی کی لوری نہ نانی کے قصے
بٹ
گئ ثقافت بک گۓ
سب حصے
رعایا
اداس ہے، امراء کی عیش ہے
ہستی
بدل کے جو جیے رُلتا وہی قیس ہے
یہ
نسل بہت سیانی ہے اجداد کی کون مانے
انگریزی
دور ہے صاحب اردو کون جانے
کلمہ،
حرف، لفظ کی پہچان چاہیے
اب
اس قوم کو اسلاف کی امان چاہیے
الف
سے اللہ پڑھانے واے معلم چاہیے
جو
نہ بکے سکیں ایسے قلم چاہیے
اک اک حرف کی ہو معطر تاثیر
وطنِ
عزیز کو ایسے نادر الفاظ چاہیے
انگریزی
دور کا اب زوال چاہیے
اردو
کو اب قوم کا نفاظ چاہیے"
سوزِ
قلم : صفا خالد
صدر
تحریک نفاذ اردو فیصل آباد ، پاکستان
********************
No comments:
Post a Comment