کم تری کا قفس
(نظم)
ازقلم مریم فیاض
مرے وجود پہ تحقیر کی سیاہ لکیریں،
وہی پرانی روایت کی بے صدا زنجیریں،
کہ جن میں قید ہے صدیوں سے میرا تن و
جاں،
یہ رسمِ جبر، یہ قانونِ بے اماں، اب
تک۔
میں اک بدن ہوں، فقط زینتِ نظر ٹھہری،
کہ جیسے روح ہو ناپید، اور ہنر ٹھہری،
کبھی میں خواب کی صورت، کبھی گناہ بنی،
کبھی میں خاک رہی، اور کبھی پناہ بنی۔
مجھے صدا دی گئی "صبر" کی،
"وفا" کی قسم،
کہ میرا حق نہیں حرفِ شکایت کا عالم،
مرے سوال کو گستاخی کہا جاتا ہے،
مرے سکوت کو پاکیزگی بنایا گیا۔
میں وہ چراغ ہوں جو صحن میں تو روشن
ہے،
مگر ہوا سے لرزتا ہر ایک انجمن ہے،
مرے لبوں پہ جو قفلِ سکوت رکھا ہے،
وہی تو میرے لہو کا عذاب لکھا ہے۔
کبھی میں بیٹی بنی، اور بوجھ کہلائی،
کبھی میں بیوی بنی، تو قید بن آئی،
کبھی میں ماں بنی، تقدیس میں لپیٹی گئی،
مگر "انسان" کہلانے سے
محروم رہی۔
میں جس کو چاہوں، وہ جرمِ عظیم ٹھہرے،
میں جو نہ چاہوں، وہ بھی نصیب ٹھہرے،
مرے ارادے، مری چاہ، میری خواہش کیا؟
یہ سب تو مرد کی مرضی کے تابع ٹھہرے۔
مگر سنو!
اب اور صدیوں کا یہ ظلم سہنا نہیں،
اب اپنی ذات کو مٹی میں گم کرنا نہیں،
مرے حروف میں اب تازیانہ بھی ہے،
مرے قلم میں بغاوت کا فسانہ بھی ہے۔
میں اب ہنر ہوں، میں آواز ہوں، میں
نغمہ ہوں،
میں اک چمکتا ہوا خوابِ نوح کا چہرہ
ہوں،
مرے لہو سے رقم ہو گی اک نئی تاریخ،
کہ جس میں عورت نہ محکوم ہو، نہ
خاموش۔
**************
No comments:
Post a Comment