نظم:
یہاں لوگ
حاصلِ
و محصول کہاں شرط عشق کی۔
عشق
کو اپنی شرائط پہ چلاتے ہیں یہاں لوگ
کوئی
مجنوں ، کوئی لیلی ، کوئی رانجھا باقی نہیں
نقاءل
کی کاپیاں چلاتے ہیں یہاں لوگ
شام
کا چراغ بن کر نہ نکلے کوئی
چراغوں
کو اپنی سانسوں سے بجھاتے ہیں یہاں لوگ
زہرا
کے پردے سے واقف نہیں کوئی
زلیخا
کی حوس سے متاثر ہیں یہاں لوگ
ملتوی
کر رہا ہے خدا انکی مہلت کو
اسکی
مدت مہلت پہ اتراتے ہیں یہاں لوگ
اندھیرے
کا تارا نہ بننا تم سحر
صبح
کی روشنی میں چھپ جاتے ہیں یہاں لوگ
ازقلم:نور
سحر
***********
No comments:
Post a Comment