میری الجھنیں اپنی زات کے گرد گھومتی ہیں:
عنوان
میری الجھنیں اپنی زات کے گرد گھومتی
ہیں
جبکہ تنہا ئیاں جزبات کے گرد گھومتی ہیں
آرزوؤں پہ بند باندھ رکھے ہیں اس لیے
کہ
میری خواہشیں سب حالات کے گرد گھومتی
ہیں
پوچھتی ہوں میں فلک کے ہر سرمیئ بادل
سے
یہ کالی گھٹائیں کس برسات کے گرد
گھومتی ہیں
دیکھا جو راہ پہ چلتے ہوۓ
اک فقیر کو تو
پتا چلا کہ نگاہیں اسکی خیرات کے گرد
گھومتی ہیں
پڑھا جو قصہء خضر تو یہ معلوم ہوا مجھ
کو
ان کی متلاشی نظریں آبِ حیات کے گرد
گھومتی ہیں
سنا ہے میں نے کہ اَفق کی کہکشا ئیں
ساری
اس وسیع و عریض کا ئنا ت کے گرد گھومتی
ہیں
تیرا ہر لفظ حرفِ آخر ہے میرے لیے کیونکہ
اک نگاہِ تسلیم تیری ہر بات کے گرد
گھومتی ہیں
یا رب تو جانتا ھے میرے سب خیال اور
سوچیں
فقط تیری نظرِالتفات کے گرد گھومتی ہیں
بدقسمتی سے ہم اس زمانے کے باسی ہیں
جہاں اشرفیاں بس اوقات کے گرد گھومتی
ہیں
بتول حال ستاروں کا اب نہیں پڑھتی
کہ پیش گوئیاں ان کی ممکنات کے گرد
گھومتی ہیں
***************
Best poetry by My Sister ❤️
ReplyDeleteBravo! Great poetry dear... Bohot Aala.
ReplyDelete