عنوان:
مانگی ہوئ دعاؤں کا اب تو جواب آنے کو ہے
مانگی
ہوئ دعاؤں کا اب تو جواب آنے کو ہے
برسوں
سے لکھے خط کا آخر جواب آنے کو ہے
دنیا
کی تلخ باتوں نے ہم کو ہے یوں تھکا دیا
کہ
نیند ہوئ ہے مہرباں ، اک اور خواب آنے کو ہے
کھلنے
لگے جو خال و خد تو ہمیں یہ خبر ہوئ
بچپن
تو ہے گزر چکا اور اب شباب آنے کو ہے
چہرے
کی تابناکیاں تھیں گھٹا کی اوٹ میں
زلفیں
ہٹیں تو یوں لگا کہ مہتاب آنے کو ہے
دیکھا
جو بے رخی کا رنگ ہونٹوں پہ قفل لگ گئے
اب
رفتہ رفتہ عشق پر بھی اضطراب آنے کو ہے
مجھ
پہ بھلا تو ستم کر لیکن او میرے بے خبر
یہ
جان لے کہ جلد ہی یوم حساب آنے کو ہے
بتول
چند الفاظ پر یہ غزل ہوئ ہے تمام
اب
جلد ہی سب کے لیے ایک اور نصاب آنے کو ہے
***************
No comments:
Post a Comment