affiliate marketing Famous Urdu Poetry: Meri kitab Poetry by Shayara Sahar

Sunday, 13 April 2025

Meri kitab Poetry by Shayara Sahar

میری کتاب

 

میں نے کوشش کی مگر میں ہار گئی

امیروں کی ڈور پکڑ کر میں نے دوبارہ کوشش کی

مگر مقدر کے ہاتھوں میں دوبارہ ہار گئی

میرے لیے کوشش ضرورت تھی

میں چاہتی تھی کہ ہار میری عادت یا فطرت نہ بنے

میں کوشش کرتی رہی مگر……..

 

امتحان کے پرچے کو دیکھ کر میں نے ایک آہ بھری

قلم کو اٹھا کر جواب لکھنے شروع کیے

کچھ سوال آسان تھے تو کچھ بہت مشکل

کچھ تو دماغ سے پرے تھے

میں نے ایک لمحہ رک کر آس پاس نظر دوڑائی

سب مصروف تھے

اپنی اپنی کوششوں میں…….

 

میں نے وقت دیکھا پانچ منٹ باقی تھے

ڈھائی گھنٹے کا وقت ریت سا گزر گیا

ایگزامنر نے انسر شیٹ چھین لی

سب کے چہرے پرسکون تھے

سوائے میرے

حالانکہ میں نے اپنی پوری کوشش کی تھی…..

 

نتیجہ میرے ہاتھ میں تھا

میں نے ہمت کر کے اپنی آنکھیں کھولی

ہمیشہ کی طرح ناکام رہی

لاکھ کوششوں کے باوجود میں عام رہی…..

 

کتب کھانے کے کونے میں بیٹھی

پنوں کو پلٹتی ہوئی میں

چہرے پر بے حد بیزارگی لیے

بالوں کو نوچتے ہوئے

پریشان ہو رہی تھی……

 

میں نے قلم اٹھا کر علم ریاضی کے سوال

حل کرنا شروع کیے

میرے کانوں میں کوئی اہٹ سنائی دی

پرسکون، مطمئن ، ہمدرد، اور مرہم سی

میں نے نظر اٹھائی

دیوار کے کونے سے لگی ریک میں

ایک کتاب

تاروں کی مانند جگمگا رہی تھی……

 

میں نے نظر انداز کرنا چاہا

مگر نہیں کر پائی

ہمت کرتے ہوئے میں

اس کتاب کے پاس آئی

کتاب کو آہستہ لے کر

میں نے پہلا پنہ کھولا

"آہہ……آخر تم نے مجھے ڈھونڈ ہی لیا"

بڑے بڑے لفظوں میں لکھی وہ عبارت

کو دیکھ کر میں نے فورا وہ کتاب بند کر دی

فورا اپنا سامان لے کر

اپنی پوری رفتار سے باہر کی طرف بھاگی

عجیب تھا….. بہت زیادہ عجیب

 

خالی سڑک پر صرف میں تھی

اور میری تیزی سے چلتی دھڑکن

میرے ماؤف ذہن کو اس عبارت میں

الجھا کر رکھ دیا تھا……

 

اپنی چھوٹے سے کمرے میں

سٹڈی ٹیبل پر بیٹھے

میرے سامنے علم ریاضی کے سوال تھے

اور ایک طرف گرم دودھ کا گلاس

جس سے دھواں ہوا میں شامل ہو رہا تھا

میں نے دونوں کو باری باری دیکھا

کتاب کھولا تو

وہ جملہ ایک بار پھر ذہن میں آیا

"کیا وہ کتاب مجھے جانتی ہے؟………

 

 

دن گزرتے گئے

میں نے دوبارہ کتب خانے میں قدم نہیں رکھا

ہمت ہی نہیں ہوئی

امتحان میں پوری کوشش کے باوجود بھی

ہار ہی نصیب ہوئی

کیا ہار میرا مقدر بن گئی تھی…….

 

وہی ہوا جو گمان تھا

ہر بار کی طرح عام سے نمبروں سے

پاس ہوئی تھی میں

کیوں قسمت کا دروازہ بند تھا

کیوں میں ہر کوشش کے باوجود تھک جاتی تھی…..

 

 

اسکول سے پڑھائی ختم کر کے

میں سڑک پر اکیلی چل رہی تھی

بال بری طرح بکھرے تھے

اور اسکول یونیفارم پر

سیاہی کے نشان تھے

آنکھوں میں نیند

اور بہت گہری تھکن تھی…….

 

 

میرے قدم بے اختیار اس کو تو کھانے کے آگے رک گئے

اور ساتھ ہی ساتھ میرا دل

"کیا وہی حل ہے میرا.."

 

میں نے ڈرتے ڈرتے

کتب کھانے کی طرف قدم بڑھائے

بالکل مدہم سانسوں کی طرح

آہستہ آہستہ……

 

 

اس کتاب کے سامنے کھڑے ہو کر

میں نے دوبارہ خود کو روکا

مگر……..

 

میرے ہاتھوں نے وہ کتاب کھول دی تھی

وہی عبارت

اسی شدت سے میرے ذہن میں اتری

"آہ…. آخر تم نے مجھے ڈھونڈ ہی لیا"

 

دوسرا پنہ پلٹا تو

حیرت آنکھوں میں اتری

"ڈرنا نہیں

میں تمہارے ساتھ ہوں

ہر دم ہر پل"

"کیا مجھے کوئی جانتا ہے؟"

میں نے کتاب کو فورا بند کر دیا

اس کو سینے سے لگا کر

گھر پہنچی……

 

کتاب کو ڈیسک پر رکھ کر

میں کھانا کھانے چلی گئی

عام گفتگو تھی

ماں باپ کے روز مرہ کے سوال

وہی سبزی کی مہک

اور وہی عام سا ذائقہ…..

 

میں نے کپڑے بدل کر

کتاب کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی

وہ کتاب……..

واقع اس کے سوالوں کا جواب تھی

اس کے ہر مسئلے کا حل……

 

اس کتاب کے کاغذوں میں

کسی نے بڑے آسان طریقے سے

سوالوں کو حل کر رکھا تھا

واقعی بہت آسان

ایک  دل فریب مسکان

میرے چہرے پر آئی

زندگی کی طرح….

 

امتحان انے والے تھے

میں نے اس کتاب کا سہارا لیا

ہر راہ

ہر سوال

میرے لیے آسان بن چکا تھا

وہ کتاب وہی بتاتی تھی

جو میں جاننا چاہتی تھی

وہ میرے لئے گوگل بن چکی تھی…..

 

امتحان کا دن

عام سی گھبراہٹ

مگر مطمئن سی سانسیں

پریس کئے ہوئے کپڑوں

نے مجھے پر اعتماد بنا رکھا تھا

بال کمر پر پھیل کر

مجھے سہارا دے رہے تھے

شاید…. یہ درست راہ تھی……

 

سوالی پرچہ

میرے لیے کبھی اتنا آسان نہیں تھا

ہر سوال

مانو مجھے پہلے سے معلوم تھا

آنکھوں میں چمک

اور انگلیوں کی تیز رفتار

وقت سے پہلے

سارے سوال حل ہو چکے تھے

پہلی مرتبہ

عجیب تھا مگر خاص تھا…….

 

نتیجہ کا دن

مگر خوف کہاں تھا

شاید

کتب خانے کی

کسی دیوار میں

راز کی مانند

دفن تھا

 

میرے والد نے ویب سائٹ کھولی

میرے رزلٹ نے

ان کی آنکھوں کو حیرت سے

بڑا کر دیا تھا

میں نے اول درجے سے

کامیابی حاصل کی تھی

میری خوشی کی انتہا نہیں تھی

میں پہلی بار زمین پر قدم رکھ کر

آسمان میں اڑ رہی تھی…..

 

آخر کار میں

میں کامیاب ہوئی

میں نے خود کے ڈر کو ہرا دیا

واقع میں نے جیت کو پا لیا

کیا یہ اتنا آسان تھا

بہت مشکل تھا

دل نے جواب دیا

 

جشن کے بعد

میں نے اپنی کتاب کا

آخری پنہ کھولا

" دیکھا جیت گئی نہ تم"

عبارت پر انگلی پھیرتے ہوئے

مجھے احساس ہوا کہ

لکھنے والے کو

مجھ پر مجھ سے زیادہ یقین تھا

جیسے وہ بہت زیادہ پرجوش ہوا تھا

کیا اس کی جیت کا

اس سے زیادہ بھی کسی کو انتظار تھا

ہاں……..

 

 

16 سال کی عمر میں

میری زندگی میں پہلی بار

محبت کی

بنا دیکھے

بنا جانے

اور بنا سوچے

کہاپنے دل کی وراثت اس شخص کو دے دی

"کاش تم میرے سامنے ہوتے".......

 

مجھے پتہ نہیں تھا

وہ کتاب مجھے سنتی ہے

رات کی مانند

نیند کی مانند

آئنہ کی مانند

یا عکس کے مانند……

 

آخری دن تھا

سب جمع تھے

یادیں اکٹھا کر رہی تھے

سفید لباس میں

میری سیاہی کے نشان بناتے ہوئے

استادوں کو تحائف دے کر

دوستوں اور عزیزوں کو گلے لگا کر

الودا کہا جا رہا تھا…..

 

 

ان سب کو دیکھ کر

مایوسی سے میری آنکھیں نم ہوئیں

ان کی طرح میری یادیں

خوشگوار نہیں تھی

بلکہ تلخ تھی

"کیسا لگ رہا ہے جیت کر"

اچانک آواز پر

میں نے دائیں طرف دیکھا

ہاں

وہ وہی کتاب تھا

وہی عبارت تھا

کالی شرٹ اور سفید پینٹ میں ملبوس

بالوں کو آگے کیے ہوئے

سنہری بڑی آنکھیں

دلکش چہرہ

دراز قد

کیا میں نے اسے کبھی دیکھا تھا

شاید ہاں…….

 

باسکیٹ بال کے گراؤنڈ میں

پسینے سے شرابور

ہاں ہاں کینٹین میں

آوارہ گردی کرتے ہوئے

ہاں آیا

یہ میرا سینیر تھا

کیا وہ واقع میری کی کتاب تھا……

 

"ہاں میں ہی ہوں

تمہاری اپنی کتاب"

میں نے چونک کر

اپنی پلکیں جھپکائ

میں نے کچھ بولا نہیں تھا

" سن رہا ہوں"

وہ اب بھی سامنے دیکھ رہا تھا

"کیسے"

" میں کتاب ہوں تمہاری

تمہارے پریشان پا کر

تنہا پا کر

لکھی گئی کتاب"

مگر میں نے کیوں پوچھا

" ایسے ہی"

کندھے اچکا دیے گئے

بڑا آسان اور سادہ جواب تھا

" آگے بھی تمہاری کتاب بن کر رہوں گا

آئینہ کی طرح

عکس کی طرح

رات کی طرح

نیند کی طرح……"

 

اس کی کتاب

آج واقع بول رہی تھی

اور بہت خوبصورت

" اس احساس کا نام نہیں ہے میرے پاس"

" مگر میرے پاس ہے"

میں نے فورا کہا

وہ چونک کر

میری طرف متوجہ ہوا

پھر مسکرایا

شاید

اسے میرا جواب پسند آیا تھا

"کیا"

وہ میرے قد تک جهک کر

نظریں ملا کر بولا

" محبت

عبادت

تقویت

شدت

جنونیت

راحت

اور مزید ہیں"

وہ ایک بار پھر مسکرایا

شاید وہ سننا اور بولنا چاہتا تھا

 

" منظور ہے؟

میری عمر بھر کے لیے

کتاب بننا"

اس نے ایک لمحہ لیا

پھر اثبات میں سر ہلایا

پرجوش اور بے حد خوش

 

"منظور ہے تمہیں؟

مجھے تاعمر پڑھنا

میرے لفظوں کو

اپنا حل بنانا

اپنا راستہ بنانا"

میں نے ایک لمحہ لیا

پھر پرجوش انداز میں

اثبات میں سر ہلایا

میری واقع جیت ہوئی تھی

لکھاری اور کتاب

دونوں میری قسمت تھے

خوبصورت

حسین ذہین

وہ میری کتاب تھا

ہمیشہ کے لئے…….. 


شکریہ قارین 

1 comment: