affiliate marketing Famous Urdu Poetry: Meri nakam mohabbat Poetry by Kinza Afzal

Monday, 12 May 2025

Meri nakam mohabbat Poetry by Kinza Afzal

میری ناکام محبت

شہر آگرہ

محبت کا شہر

عشق کی زمین

تاج محل کا دبدبہ

مغل کے چھاپ

 

تاج محل کی سفید روشنی

میرے برابر بیٹھی لڑکی پر پڑ رہی تھی

میری نظروں کا تعاقب

تاج محل کی دیواروں سے ہو کر

اس کے چہرے پر آ کر رکا

بہت ہی عمدہ

تاج محل سے بھی زیادہ خوبصورت

حسین دلکش

عام سا انار کلی لباس

ہوا میں تیرتے بھورے بال

چمکتی آنکھیں

لمبی دارز ناک

اور مشک کی خوشبو

 

وہ ہنس پڑی

مجھے خود کو دیکھتا پا کر

میں ایک بار پھر

کھو گیا اس کی ہنسی میں

" شاید عشق اسے کہتے ہیں"

 

میرے تبصرے پر وہ چونکی

" کسے کہتے ہیں"

اس نے عام سے لہجے میں دریافت کیا

میں نے ایک گہری سانس لی

" تمہیں"

میں نے اس کے بالوں میں

انگلیاں پھیرتا ہوا بول پڑا

وہ مزید سرخ ہوئی

آفتاب مزید سرخ نظر آنے لگا

 

" آخر کب تک دل جیتو گے"

اس نے مسکرا کر

شاہ جہاں کے مقبرے کو دیکھ کر کہا

" جب تک پا نہ لوں"

" پا تو لیا ہے"

اس نے کندھے اچکائے

جیسے وہ واقع میری تھی

 

کچھ دیر یوں ہی

تاج محل کو دیکھتے

میں اس کو دیکھتا

وہ ممتاز کو دیکھ کر

رشک کھاتی

زمانے کی بھاگ دوڑ نے

تاج محل کی رونق کو

مند ضرور کر دیا تھا

مگر اندر مدفون

دو اشخاص نے

عشق کو اس قدر

درج کیا تھا کہ

کوئی ہوا

پانی

دھوپ

اسے نہ مٹا سکی

 

پورے دو مہینے بعد

ہماری ملاقات ہوئی تھی

رات کے وقت اس کی یاد

شدت سے آئی

ایک پل کے لیے

آنکھیں نم ہوئیں

لب ساکت ہو گئے

دل نے چیخ کر

اپنے محبوب کی مانگ کی

مگر فاصلہ........

 

رات بھر فون پر

بان کرکے

صبح دیر سے آنکھ کھلی

تیار ہو کر کام پر جانا چاہا

مگر جسم درد اور بخار سے

تپ رہا تھا

فون پر اطلاع

دے کر میں

واپس بستر میں لیٹ گیا

 

قریب ایک بجے میں

بیدار ہوا

آنکھیں رگڑتا ہوا

آئینہ کے سامنے آیا

چہرے پر لال لال

دانے دیکھ کر

حیرانی ہوئی

اتنے میں میری

جانِ جہاں کا فون آیا

"آج کام پر کیوں نہیں آئے"

غصہ, فکر, حیرانی

ايک جملے میں نظر آئی

میں کھانسا تو

اس کے اعصاب نرم پڑے

" بیمار ہو"

" ہاں"

میں نے بس فقط اتنا کہا۔

اس نے مجھے ڈانٹا

پھر کہا

" تیار رہو میں آ رہی ہوں

ہاسپٹل چلتے ہیں"

میں بے اختیار مسکرایا

" کوئی بات نہیں میں ٹھیک ہوں"

وہ مزید خفا ہوئی

 

 

اف اف یہ محبت

تو اب مجھے تیار ہونا تھا

شفا سے ملنے

مرحم سے ملنے

میرے محبوب سے ملنے

بیماری ایک بہانہ بن گیا تھا

 

ڈاکٹر سے مجھے ڈانٹ کھلوا کے

میڈم جی نے

ڈاکٹر سے دوائیاں لی

میرے بازو میں

اپنا ہاتھ ڈالتے

وہ میرے برابر چل رہی تھی

عام سی الرجی تھی

" کیا تمہارے لئے میں اتنا اہم ہوں

کہ تم سب چھوڑ چھاڑ کر آگئی"

وہ برابر چلتی ہوئی رکی

میرے طرف متوجہ ہوکر

"بہت زیادہ"

اس نے نظریں اور

ہاتھ ملا کر کہا

کتنا اچھا ہوتا ہے

کسی کے لیے اہم ہونا

میں واقع خوش قسمت ہوں

 

عرصہ گزرا

میں صحت یاب تھا

آفس میں کام کرتے ہوئے

بار بار

اپنی محبوبہ کو دیکھتا

اور زنده ہو جاتا

آج وہ کچھ سنجیده تھی

 

" کیا ہوا سب ٹھیک ہے"

میں نے آخر کار پوچھ ہی لیا

" تم کیا کروگے"

ہر بار کی طرح وہی جواب

" صحیح بات ہے میں کیا کر سکتا ہوں"

میں نے مایوسی سی کہا

میں واقع کچھ بھی کرنے کے

قابل نہیں ہوں

 

وہ دیر رات

کھڑکی سے لگی

سوچ کے سمندر میں

غوطے لگاتی رہی

ایک آنسوں

پھسل کرنیچے گرا

دل سینکڑوں حصوں میں

بٹ چکا تھا

ایک انجانہ سا خوف

اس کے دل اور

دماغ پر حاوی تھا

اس کے درد کو

سب دیکھ پا رہے تھے

سوائے میرے

 

اگلے دن

اس کی سنجیدگی

تلخی میں بدل گئی

وہ بے رخی سے

پیش آنے لگی

اب خوفزدہ ہونےکی

باری میری تھی

بھلے ہی یہ عام تھا

مگر........

 

سارا دن وہ مجھ سے

بے وجہ نظریں چراتی رہی

جیسے وہ مظلوم

ہو یا ظالم

 

رات دیر گئے

بستر پر لیٹتے

چھت کو گھورتے

خیالوں میں ڈوبے

میں جاگتا رہا

جیسے کوئی منتظر

 

درمیانی پہر تک جاگنے کے بعد

میں نے آخر کار

اسے فون کر ہی دیا

تین چار رنگ کے بعد

کال موصول ہوئی

 

اس کی آواز میں تھکن تھی

روہانسی درد بھری

شاید وہ بہت زیادہ روئی ہوئی تھی....

 

" تم مجھے بتا سکتی ہو آخر میں کس لئے ہوں"

میری فکر مندی سے وہ

بے اختیار رو پڑی

میں مزید پریشان ہو گیا

" ایسے مت کرو میری جان نکل رہی ہے بتا دو"

التجا! التجا کر رہا تھا میں

اسی درد سے

جس درد سے وہ رو رہی تھی.....

 

" میں نے تم سے کہا تھا کہ

لڑکیوں کے پاس وقت نہیں ہوتا"

اور میری سانسیں اٹکنے لگی

ریت کی مانند دل سے خارج ہونے لگی

"میری شادی طئے ہو گئی ہے"

مجھ پر سات آسمان

ایک ساتھ آ گرے

محبت کا سمندر

ایک پل میں خشک ہو گیا

 

وہ روتی رہی

پوری شدت سے

" کچھ کرو پلیز"

اس نے منت کی

بھیک مانگی

میں ساکت

خاموش

حیران

اور شاک میں تھا

 

" بتاؤ کیا کروں"

میرے سوال پر اس کا رونا رکا

"کیا کروں کا کیا مطلب ہے مجھے لے جاؤ"

وہ ایک پل کے لئے نڈر سنائی دی

"بھگا کر"

بے وقوفانہ سوال تھا

" جیسے بھی مانگ کر بھگا کر چھین کر"

میں زخمی ہنس پڑا

" تمہیں یہ سب مذاق لگ رہا ہے"

وہ خفا ہوئی

 

" میں کر سکتا تو بہت پہلے کر دیتا"

اس کو میرے جملے پر یقین نہیں آیا

" تو محبت کیوں کی"

یک دم سے لہجہ بدلا

" وہ تو ہوگئی"

 

" میری شادی کسی اور سے ہو رہی ہے"

اس نے مجھے یاد دلانے کی کوشش کی

مگر بات ایسی تھی کہ

ساری عمر نہ بھول پاؤں

 

" تم مجھے اتنی آسانی سے چھوڑ دوگے"

"کیا وہ سب وعدے قسمیں جھوٹی تھیں"

 

میں خود کو سنبھالتے ہوئے

بیڈ پر بیٹھ گیا

میرے ہاتھ اور پیر کانپ رہے تھے

" تم منع کر دو"

میں نے حل پیش کیا

وہ طنزیہ طور پر ہسنے لگی

 

" لڑکیوں کی رائے نہیں لی جاتی

لڑکیوں کو فیصلے لینے کا حق نہیں دیا گیا

خدا کی رحمت کی اوقات دو کوڑی کی کردی ہے

بیٹیوں کو پل پل مارا جا رہا ہے

اور تم کہتے ہو منع کر دوں"

وہ سماج کا آئینہ بتا رہی تھی

 

"مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا"

میں نے جھنجھلا کر کہا

طویل خاموشی کا وقفہ

سانسوں کی آواز

کمرے میں شور کر رہی تھی

 

" تم شادی کر لو"

میری آواز سے نہ صرف خاموشی کو توڑا بلکہ

یقین

بھرم

دل

محبت

سب توڑ دیا

وہ خاموش تھی

اسے خود پر رنج ہوا

میں اس کا غلط فیصلہ ثابت ہوا

 

" میں نہیں لڑ سکتا

مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے"

ہاں مجھ میں کچھ نہیں تھا

میں خالی تھا

 

" ٹھیک ہے

محبت میں ہر بات مان لی

اس بات پر بھی لبيک

آخری بار"

وہ آخری جملہ تھا جو

میں نے سنا اور اس نے کہا

 

عشق کا محل

زمین برابر ہو گیا

تاج محل میں مدفون

شاہ جہاں

میرے جھوٹے وعدوں پر ہسنے لگا

ممتاز

میری بزدلی پر ہسنے لگی

سارا شہر

مجھ پر ہسنے لگا

 

ایک مہینے تک

ہم دونوں کا رابطہ نہیں ہوا

وہ غائب ہو گئی

 

ایک مہینے بعد اس کی

شادی کی خبر آئی

شادی کے بعد وہ

لنڈن شفٹ ہو گئی

اس نے مجھے مڑ کر بھی

نہیں دیکھا

اسے اپنے دل سے

ذہن سے نکال دیا

 

آج ایک بار پھر

تاج محل کے سامنے

عشق کی قبروں کے پاس

اپنے مردہ دل کو لئے

میں روتا رہا

میں مرد تھا

پھر میں نے قدم کیوں نہیں اٹھایا

میں بزدل کیوں کہلایا

 

کہتے ہیں محبت ہے باک کر دیتی ہے

مگر کچھ لوگ

اتنے بزدل ہوتے ہیں کہ

ان پر محبت کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا

 

محبت کرنا ان لوگوں کے لیے

بہت آسان ہوتا ہے

مگر جب باری اسے حاصل کرنے کی ہوتی ہے

تو انہیں اپنی بزدلی یاد آتی ہے

 

میں نے محبت ضرور کی

مگر دلیر نہ بن پایا

میں نے اسے چاہا حد سے زیادہ

مگر اسے پا نہ سکا

 

میری محبت میری ہی طرح

ناکام اور گمنام رہی

تاج محل کی دیواروں نے

مجھے چیخ چیخ کر

بزدل کہا

 

میں اسے اور

اپنی ناکام محبت کو

کبھی نہیں بھلا پایا

وہ آگے بڑھ گئی

کیونکہ

یہ اس کا واحد راستہ تھا

اس نے مجھے چنا تھا

وہ میں تھا

جس نے اس کا ہاتھ چھوڑا

وہ لڑنے کے لیے تیار تھی

وہ میں تھا

جو میدان جنگ سے بھاگ آیا

 

تمام عمر یہ یاد آئے گی

میری ناکام محبت کی داستان

 

*************

No comments:

Post a Comment