خواہش ہے کے اس طور سے جیون کو گزاروں
ہر عکس تیرے حسن کا آنکھوں میں اُتاروں
وہ تشنہ لبی ہے کے سمجھ کچھ نہیں آتا
دریا کو صدا دوں کے سمندر کو پُکاروں
جیون بھی تو الجھی ہوئی ڈوروں کی طرح ہے
اس سوچ میں گم ہوں کے اسے کیسے گزاروں ؟
اب اس کے سوا میرا کوئی خواب نہیں ہے
ہر سانس کو خوشنودی جاناں پہ میں واروں
بہتر ہے کے اب موت کو سینے سے لگا لوں
اس من کو تیرے ہجر میں اب کتنا میں ماروں
پہلے تو فقط حسرت دیدار تھی واثق
اب یہ بھی طلب ہے کے اسے جیت کے ہاروں
اس سوچ میں گم ہوں کے اسے کیسے گزاروں ؟
اب اس کے سوا میرا کوئی خواب نہیں ہے
ہر سانس کو خوشنودی جاناں پہ میں واروں
بہتر ہے کے اب موت کو سینے سے لگا لوں
اس من کو تیرے ہجر میں اب کتنا میں ماروں
پہلے تو فقط حسرت دیدار تھی واثق
اب یہ بھی طلب ہے کے اسے جیت کے ہاروں
No comments:
Post a Comment