اب یہ مسافت کیسےطے ہو اے دل تو ہی بتا
کٹتی عمر اور گھٹتے فاصلے پھر بھی وہی صحرا
شیشے کی دیوار زمانہ، آمنے سامنے ہم
نظروں سے نظروں کا بندھن، جسم سے جسم جُدا
اب گرد اب اپنے آپ میں گھلتی سوچ بھلی
کس کے دوست اور کیسے دشمن، سب کو دیکھ لیا
راہیں دھڑکیں، شاخیں کھڑکیں، اک اک ٹھیس اٹل
کتنی تیز چلی ہے اب کے دھول بھری دَکھنا
دکھڑے کہتے لاکھں مُکھڑے، کس کس کے سینے
بولی تو اک اک کی ویسی، بانی سب کی جدا
No comments:
Post a Comment