یار کی بستی
راہ میں پڑتی ہے بستی یار کی کچھ دیر روکتے
چلو
بہت گزری شامیں ساتھ یار کے کچھ دیر روکتے
چلو
جاں
ستاں یادیں ہیں اک فرسودہ
کہانی ہے
رات آج بھی چاندنی ہے کچھ دیر روکتے چلو
سرد ہوایئں بھی ویسی ہیں برسات کا موسم
ہے
آج بھی بجلی ویسی کڑکتی ہے کچھ دیر روکتے
چلو
چلو
سنیں کیا ابھی بھی آتے ہیں قہقے بزمِ یار سے
گر آج بھی سجھی محفلِ یار ہے کچھ دیر روکتے
چلو
قاؔصر دیکھو تو یہی وہ بستی ہے کیا اب
بھی وہ بستی ہے
دیکھو آج کیا خوب نظارے ہیں کچھ دیر روکتے
چلو
ندیم
قاؔصر