اذیتوں کی مثال دے کر
رنجشوں کا ملال دے کر
درد کی رُت کمال دے کر
مصیبتوں کی شراب دے کر
یوں درد سارے اُدھار دے کر
وہ بھول بیٹھا سَراب دے کر۔۔۔
حماقتوں کی صداقتوں میں
زندگی کی مہاوتوں میں
شباب کے رنگ اُدھار لے کر
وہ بھول بیٹھا سَراب دے کر۔۔۔
درد کا کوٸ محور نہیں
کوٸ آشنا کوٸ ہمدم نہیں
زندگی کی کتاب دے کر
وہ بھول بیٹھا سَراب دے کر۔۔۔
از
اقصٰی مبین
رنجشوں کا ملال دے کر
درد کی رُت کمال دے کر
مصیبتوں کی شراب دے کر
یوں درد سارے اُدھار دے کر
وہ بھول بیٹھا سَراب دے کر۔۔۔
حماقتوں کی صداقتوں میں
زندگی کی مہاوتوں میں
شباب کے رنگ اُدھار لے کر
وہ بھول بیٹھا سَراب دے کر۔۔۔
درد کا کوٸ محور نہیں
کوٸ آشنا کوٸ ہمدم نہیں
زندگی کی کتاب دے کر
وہ بھول بیٹھا سَراب دے کر۔۔۔
از
اقصٰی مبین
No comments:
Post a Comment