ہزار شکوے تھے ہم کو جن سے
وہ جو لوٹے سوال لائے
ہم نے سوچا ملال ہو ہوگا
انہیں بھی اپنی غلطیوں کا
محظ ہماری سوچ تھی یہ
وہ فقط دل میں غبار لائے
خیال خیالوں میں بہت سی باتیں
کہی بھی میں نے سنی بھی میں نے
صدا بھی آخر میں کس کو دیتی
کون سنتا آواز میری
سب یہاں پھنسے ہوئے ہیں
وحشتوں کی کوٹھڑی میں
دل فقیری کی چوکھٹ پہ ہے اب
زرا تو دیکھوں وہ کتنے اب شہسوار لائے
ناز نا کر تو خود پہ ماھی
یہ چار موجوں پہ چلتی کشتی
یوں ہے سمندر کا بہتا پانی
زندگی کا یہی فسانہ ہے
لہروں کی میں ہے کھو جاتی کنارے پہ آکے آخر سو ہے جاتی
No comments:
Post a Comment