سنا ہے کہ وہ آج بھی ڈھونڈتا ہے مجھے میرے شہر میں
اسےکہہ دوکہ محبتیں ہربار دستکیں نہیں دیتی
زرا پوچھو تو سہی اس سے کہاں پہنچا غرور اس کا
کہاں بدلے ہیں ھم یاروں ۔۔؟
وہی ہیں ہجر کی راتیں وہی چاند سے ملاقاتیں
تم جو ہر بار کہتے تھے مجھ سے
بھول جاؤں مجھ کو یہ محبت کچھ نہیں ہوتی
ہم تو آج بھی کہتے ہیں محبت ہی عبادت ہے
محبت پھول صحرا کا
محبت پیاس کی شدت میں آب حیات کا پیکر
اگر محبت کچھ نہیں ہوتی تو
یہاں پر ہیر کیوں مرتی ۔۔؟
نہ یوں گھر تباہی ہوتے
مجھے اچھا سا لگتا ہے ماھی
میرا گمنام سا رہنا میری محبت میں تیرا انجان سا رہنا
---
No comments:
Post a Comment