لوگ عــورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں
رُوح بھی ہوتی ہے اُس میں یہ کہاں سوچتے ہیں
رُوح کیا ہوتی ہے اِس سے اُنہیں مطلب ہی نہیں
وہ تو بس تن کے تقاضــوں کا کہا مانتے ہیں
رُوح مرجائے، تو ہر جسم ہے چلتی ہوئی لاش
اِس حقیقت کو سمجھتے ہیں نہ پہچانتے ہیں
کئی صدیو ں سے یہ وحشت کا چلن جاری ہے
کئی صدیــوں سے ہے قائم یہ گناہوں کا رواج
لوگ عورت کی ہر اِک چیخ کو نغمہ سمجھیں
وہ قبیــلوں کا زمانہ ہو، کہ شہروں کا سماج
جبر سے نسل بڑھے، ظلم سے تن میل کرے
یہ عمل ہم میں ہے، بے علم پرندوں میں نہیں
ہم جو اِنسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
No comments:
Post a Comment