سن
کر خاموشیوں کی زبان
مسکراتے
ہے ہم
درختوں
کے پت جھر کا منظر
دیکھتے
ہے ہم
لوگوں
کی سسکیاں اہیں
سنتے
ہے ہم
اس
دنیا میں خون کی ہولی دیکھ کر
روتے
ہے ہم
اس
جنت کے باغ کے لئے ۔
ترستے
ہے ہم ۔
مثنوی
چیزوں سے
ڈرتے
ہے ہم
خدا
کا نام جو اے
ہنستے
ہے ہم
مغربی
ثقافت پر
مرتے
ہے ہم
دینی
علوم سے
جھجھکتے ہے ہم
گناہوں
کے دلدل میں رہ کر
خود
کو مسلمان کہتے ہے ہم
سن
کر خاموشیوں کی زبان
مسکراتے
ہے ہم
۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ A.k. . . . . .
No comments:
Post a Comment