ذکر ان کا رہتا ہے زباں پہ تو محو تسبیح دل بھی ہے
چھین
لی گویائی حادثوں نے ورنہ کرتے بیاں
دل برباد کا موسم۔
انہیں یہ شکوہ ہے خوشی ان کی اہم نہیں ہمارے لئے۔
جن کی خوشیوں کی تمنا میں ٹھہرا ہے زباں
پہ فریاد کا موسم۔
نکہت گل محسوس کرتا نہیں خزاوں میں گھرا
وجود
بڑی مدت سے اترا نہیں میرے آنگن دل میں بہار کا موسم
پیمانہ ہے محبت کا
نہ یاد ہیں اب
لذت اے ہجر و وصال
مجھ سے بچھڑا ہے کب وہ میرے گھر
میں تو رہا ہمیشہ میرے یار کا موسم۔
محبت ہے متاع حیات اہل محبت کا شیوہ نہیں
فقط غرض وفا۔
سر شام جلاتا ھوں ہر قبر پہ دیا صدیوں سے
میرے اندر ہے دربار کا موسم۔
مرض
موت کی دوا ہے
" قمر " فقط دیدار یار۔
روح پھڑپھڑاتی ہے قفس میں اور انکھوں میں
ٹھہرا ہے انتظار کا موسم
Rae.qamarkhan@gmail.com
No comments:
Post a Comment