تیری باتوں سے کوئی بات نکالی جائے
تیرے لہجے کی اذیت چھپالی جائے
تیرے در پہ بیٹھا تھا رویا تھا
یہ اچھا نہیں کہ منہ پھیر کے سوالی جائے
ہوجائے سچ اسکے منہ سے نکلی ہر بات
میرے تو خوابوں کی تعبیر بھی خالی جائے
اس نے خواہش کی ہے ستاروں کی مجھ سے
سو میرے خیال سے آسماں پر کمند ڈالی جائے
محبت تو جلا دی تھی کب کی میں نے
تیری یاد کی گٹھری تو سنبھالی جائے
احسن لگتا ہے یہاں رہنے نہیں دیں گے لوگ
اپنے حصے کی مٹی اب اٹھالی جائے
ازقلم : احسن افتخار
No comments:
Post a Comment