بات آتی ہے لبوں تک____ پر سی لیا کرتے ہیں
اس مجبورئ بیاں کو محرومئ بیاں کر لیا کرتے ہیں
تیرے سمندر بھرے نینوں سے جب آنسو نکلیں
الفاظ بنا کر انکو__ کہانی بن لیا کرتے ہیں
تم سے ملنے کا ہو گا اشتیاق__ جسے ہو گا
تصور جاناں میں تو ہم بھی مل لیا کرتے ہیں
اس اجمل وصل کے متلاشی تھے ہم بھی کبھی
خرقہ پوش سمجھ کر دل کو سمجھا لیا کرتے ہیں
اپنے سارے دریچے کھولے رکھتے ہیں تاسر شام
تیرے انتظار میں_ دیپ جلا لیا کرتے ہیں
خود کی مجبوری کو بھول بیٹھتے ہیں اک پل
ساقی سے جب اک جام_ پی لیا کرتے ہیں
مہر مشکک جانتے ہیں قصور انکا بھی نہیں کوئی
ہر کسی کی منشاء پہ جو خود کو ڈھال لیا کرتے ہیں
حمیرا
ہری پور
No comments:
Post a Comment